یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑنے والے غیر مسلم ہوتے اور ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت ہوتی تو کشمیر کب کا آزاد ہو چکا ہوتا۔اقوام متحدہ کب کی حرکت میں آچکی ہوتی ،سلامتی کونسل میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے منظور کردہ قرداد پر ان 71 سالوں میں بزور طاقت عملدرآمد بھی ہو جاتا۔افسوس اقوام متحدہ سمیت دیگر انصاف پسند اداروں نے اسکودو ملکوں کا مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کر رکھا ہے۔مشرقی تیمور کو آزادی مل سکتی ہے لیکن کشمیریوںکی تحریک کو کچلنے کے لئے بھارت کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے،اس کی سات لاکھ سے زائد قابض درندہ صفت سیکورٹی افواج نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔وادی کا چپہ چپہ لہو لہان ہے،کشمیر ی زعفران کی خو شبو میں کشمیریوں کے خون کی بو رچ بس گئی ہے۔کشمیری گھروں پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں،قیمتی املاک کو اسرائیلی ساختہ بارودی موا د سے اڑایا جا رہا ہے۔
کشمیر کی خصوصی شناخت اور الگ پہچان کے خاتمے کی سر توڑ کوششیں ہو رہی ہیںاس کے لئے بھارتی سپریم کورٹ کی خدمات لی گئی ہیں۔ اسرائیلی طرزکی ہندو پنڈتوں کی بستیاں بسائی جارہی ہیںاور سب کچھ اقوام متحدہ کی چھتری تلے ہو رہا ہے۔ہندو فرقہ پرست بھارتیہ جنتا پارٹی سال 2014ء سے برسراقتدار آئی’ یہ پہلی بار تھا جب بی جے پی کشمیر میں اتحادی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور پھر یہ کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کا اپنا خواب پورا کرنے کی جانب ایک قدم آگے بڑھی بھارت کی آزادی کے پہلے دن سے ہی ہندو قوم پرستوں نے کشمیر کے بھارت کیساتھ انضمام کا خواب دیکھا’فاشسٹوں کی کئی دہائیوں سے کوششیں ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے’ اسی مقصد کے پیش نظر جموں میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی ۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کی قیادت میں ہندو انتہاء پسند قوتوں نے مسلسل 1927ء میں مہاراجہ ہری سنگھ کے نافذ کردہ قانون کے تحت جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے اور کشمیر کے لوگوں کو جھکانے کی کوششیں کی ہیں۔سال 2014ء سے اقتدار میں آنے کے بعد حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس قانون کے خاتمے کیلئے منظم مہم شروع کی۔جس میں تجویز کیا گیا کہ پاکستان سے آنے والے ہندو مہاجرین جو جموں و کشمیر کے علاقوں میں رہ رہے تھے’ انہیں مستقل شہریت دی جائے’ کشمیری پنڈتوں کیلئے مغربی کنارے پر اسرائیلی آبادیوں کی طرز پر علیحدہ کالونیاں بنائی جائیں اور سابق بھارتی فوجیوں کیلئے فصیل بند شہر تعمیر کیا جائے۔ کشمیریوں کے پاس ایک ہی آپشن تھا’ مزاحمت یا پھر خاتمہ اور کشمیریوں نے مزاحمت کا انتخاب کیا جیسا کہ وہ کئی دہائیوں سے کرتے آ رہے ہیں۔
بی جے پی حکومت کی کشمیری مزاحمت سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کی حکمت عملی کی وجہ سے کشمیری نوجوان ہلاک ہو رہے ہیں۔ موجودہ دور کی سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ جب بھارت جیسی جدید ریاستیں اختلاف کو دبانے اور عوامی مزاحمت کو کچلنے کیلئے طاقت کا غیر متوازن استعمال کریں’ تب بھی مسلح جدوجہد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ قانون کی بالادستی نامی فراڈ کے ذریعے ریاستی جبر و تشدد کو جائز قرار دیا جاتا ہے جبکہ مظلوم و مجبور طبقے کے ہتھیار اٹھانے کے پیچھے موجود وجوہات کو بالکل بھی تسلیم نہیں کیا جاتا کشمیر ایسی ہی ایک مثال ہے ۔بھارت کشمیریوں کو جھکانے کیلئے ہر ممکنہ حد تک خطرناک ٹیکنالوجی کا استعما ل کر رہا ہے’گولیوں’ چھروں’ آنسو گیس ،مرچ کے گولوں’ عقوبت خانے’ این آئی اے جیسے بے رحم انٹیلی جنس اداروں اور تہاڑ جیل کے باوجود کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد دبانے میں بھارت اب تک ناکام رہا ہے جبکہ کشمیر کے حوالے سے مودی حکومت کے مقاصد واضح ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ مودی کے آتے ہی کشمیر میں مزاحمت کے ایک نئے اور نہ ختم ہونے والے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ وادی کے مسلمان فلسطین ماڈل کے خلاف ردعمل میں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ طاقت اور درندگی سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچلا نہ گیا تو اب آخری آپشن کے طور پر آبادی کا تناسب بگاڑا جا رہا ہے۔ اس کے لئے مودی سرکار نے آئینی اداروں کا سہارا لے رکھا ہے۔ ضروری ہے کہ کشمیر میں بھارتی عزائم کے حوالے سے پاکستان کو بھرپور سفارتی مہم کا آغاز کرنا چاہیے اور تمام سفارت خانوں کو متحرک کرنا چاہیے’ کیونکہ اگر آبادی کے تناسب بگاڑے کا کھیل کامیاب ہوگیا تو یہ خطے میں مسلمانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہوگا اور یوں مسلمانوں کو اپنے لئے کوئی نیا مقام اور ٹھکانہ تلاش کرنا ہوگا۔ انٹرنیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس اور سائوتھ ایشیا سینٹر فار پیس اینڈ ہیومن رائٹس نے کشمیری جیلوں اور عقوبت خانوں میں سڑنے والے کشمیریوں کے بارے میں اپنی انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہان قیدیوں سے ان کے مذہب اور تعلقات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت انڈیا نے جموں اور کشمیر کے لوگوں پرجنگ مسلط کر دی ہے اورمعمول کے تمام ضابطوں کو پس پشت ڈال دیا گیاہے۔کشمیریوںکو اپنے جائز اور بنیادی قانونی حقوق مانگنے پر سزا دی جا رہی ہے۔ بھارتی حکومت کشمیریوں کی تحریک مزاحمت کو کچلنے کیلئے ظلم ، جبر اور تمام دوسرے ہھتکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ ہزاروں قیدیوں کو غائب کر دیا گیا ہے بیشتر قیدیوں کو ناجائز حراست میں رکھا گیا ہے۔پی ایس اے اور اے ایف ایس پی اے جیسے کالے قوانین کے ذریعے آزادی اظہارکا حق دینے سے انکار کیا گیا ہے۔حریت رہنما شبیر احمد شاہ ، مسرت عالم ، نعیم احمد خان ، فاروق احمد ڈار ، آسیہ اندابی اور بہت سے دیگر کی مسلسل گرفتاریاں اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت ظلم کی ایک طویل داستان رقم کر چکا ہے۔
ایک لاکھ کے قریب کشمیری شہید کیے جا چکے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان کشمیری بھارتی ریاست کے عقوبت خانوں میں صعوبتیں برداشت کر رہے ہیںجبکہ ہزاروںکی تعداد میں کشمیری پیلٹ گنوں کا نشانہ بن کر آنکھوں کی بصارت سے محروم ہو چکے ہیں۔کشمیری پاکستان کی طرف امیدکی نظریں لگائے بیٹھے ہیں کہ کسی محمد بن قاسم ،سلطان محمد فاتح،طارق بن زیاد کے منتظر ہیں ۔اس محمد بن قاسم کے کہ جو راجہ داہر کی بڑی سلطنت اور بدمست ہاتھیوں کو اپنے گھوڑوں کے پائوں کے نیچے روند کر عرب سے ملتان تک اسلام کی روشنی کو لے آئے اور اس سلطان محمد فاتح کے منتظر ہیں جوخشکی پہ بحری بیٹرہ چلا کر آیا صوفیہ پر اسلام کا پرچم لہرادے ،اس طارق بن زیاد کے منتظر ہیں جس کی ہیبت وحشمت سے شاہ اندس خود کشی کرنے پر مجبور ہوجائے ۔کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور اب پاکستان کو کشمیر کے حصول کے لیے اپنی پالیسی واضح کرنی ہوگی کہ کیا پاکستان کشمیر کی آزادی کے لیے نیوکلیئر جنگ کی حد تک جاسکتا ہے ؟ جس دن یہ پالیسی واضح ہوگئی اس دن کشمیر ہندئوستان کو فتح کرنے کے لیے ایک دروازہ ثابت ہوگا۔ ۔۔۔
چین و عرب ہمارا ہندئوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم ،وطن ہے سارا جہاں ہمارا