تحریر : انجینئر اصغر حیات ویسے تو کشمیری گزشتہ سات دہائیوں سے ریاستی جبر کا سامنا کر رہے ہیں لیکن جولائی 2016 سے جس طرح ریاستی طاقت اور جبر کا استعمال کیا جا رہا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی، کریک ڈائون، گرفتاریاں، جعلی مقابلوں میں ہلاکتیں، پیلٹ گن کا استعمال حتی کہ کوئی جبر کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبا نہیں سکا ، پوری ایک نسل کو بینائی سے محروم کردیا گیا لیکن کشمیریوں نے دینا کی طویل ترین ہڑتال کرکے ثابت کیا کوئی بھی طاقت انہیں ان کے بنیادی حق سے محروم نہیں رکھ سکتی ، سلام ہے کشمیری قوم کو کہ جنہوں نے فلسطینیوں کے بعد دنیا دوسرا طویل ترین احتجاج ریکارڈ کروایا اور ابھی بھی سڑکوں پر ہیں ، سلام ہے اس نوجوان نسل کو کہ جو بینائی سے تو محروم ہوئے لیکن بھارت کے خلاف ڈٹے رہے ، خراج تحسین کے مستحق ہیں وہ تاجران جنہوں نے نقصان برداشت کیا لیکن دنیا پر باور کروا دیا کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں، سلام ہے حریت قیادت کو، سلام ہے سید علی گیلانی ،یسین ملک اور میر واعظ جو کہ جنہوں نے صحت کی پروا کیے بغیر ہر ظلم برداشت کیا اور ہر قدم پر مظلوم کشمیریوں کی قیادت کی۔
8 جولائی کو برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیریوں کی تحریک اہم مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ، 8 لاکھ فوج کی موجودگی تمام تر ریاستی طاقت کے باوجو بھارت کو کشمیریوں کے سامنے پسپائی کا سامنا ہے۔کشمیر کے حوالے سے پانچ رکنی بھارتی تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی طرف سے بھارت مخالف مظاہروں کو دبانے کے لیے طاقت کے استعمال نے کشمیری نوجوانوں کے دلوں سے موت کا خوف نکال دیا ہے اور وہ موت کو گلے لگانے کے لیے تیار رہتے ہیں،مسئلہ کشمیر کا حل سیاسی ہے، یہ رپورٹ اس سال 8 جنوری کو پیش کی گئی ، رپورٹ مرتب کرنے والے گروپ میں سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا، اقلیتیوں کے قومی کمیشن کے سابق سربراہ وجاہت حبیب اللہ، بھارتی فضایہ کے ایئر واس مارشل (ریٹائرڈ) کپل کاک، معروف صحافی بھارت بھوشن اور سینٹر آف ڈائیلاگ اینڈ ریکنسیلیشن کے پروگرام ڈائریکٹر ششہوبا بریو شامل تھے، اعلی سطحی کمیشن کی یہ رپورٹ یقینا بھارت کی ناکامی کا اعتراف ہے ، لیکن بھارت ہٹ دھڑمی پر قائم ہے۔
کشمیر پر پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش کو ٹھکرا چکا ہے ، کسی طرح وقت گزاری کرکے تحریک کو ٹھنڈا کرنا چاہتا ہے اور ساتھ ہی آبادی کا تناسب تبدیل کرکے مستقل حل کی سوچ میں ، بھارت کوئی دس طریقوں سے آبادی کا تناسب تبدیل کررہاہے،ایک طرف بھارتی حکومت انتہا پسند ہندوئوں کو کشمیر میں لا کر آباد کررہی ہے تو دوسری طرف تقسیم برضغیر کے وقت پاکستان سے بھارت جانیوالے ہندوئوں کو اسٹیٹ سرٹیفکٹ جاری کررہی ہے ، اسی طرح پنڈتوں اور ڈوگروں کی کالونیاں آباد کرنے پر بھی تیزی سے کام جاری ہے ، امرناتھ یاترا کے لئے 800 کنال اراضی ہندوئوں کو عبادت کی غرض سے دے دی گئی ، کشمیر میں تعینات فوجیوں کو زمین الاٹ کرنے کی سمری بھی تیار ہے ،ایک اور طریقہ صنعتیں اور کارخانے لگا کر لاکھوں کی تعداد میں ہندوئوں کو وادی میں لانا اور انہیں مستقل رہائش دینا ہے ، پہلے ہی پانچھ سے چھ لاکھ بھارتی ہر سال وادی میں مزدوری کرنے آتے ہیں۔
بھارت آبادی کا تناسب بھی تبدیل کررہا ہے اور کبھی لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگزیر ی اور کبھی اوڑی جیسے ڈرمامے رچا کر کشمیر سے توجہ ہٹانے کی کوشش کررہا ہے ، حال ہی میں دورہ برطانیہ مکمل کرکے واپس لوٹنے والے وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کہتے ہیں کہ دنیا بھارت کے جھوٹ کو سچ مان رہی ہے اور ہمارے سچ کو کوئی نہیں پوچھتا ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور یہاں کے اداروں میں بھارتی پالیسی کے توڑ کے لئے کیا حکمت عملی اپنائی جارہی ہے، کشمیری قیادت کیا سوچ رہی ہے ؟ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری کشمیر کمیٹی اور دفتر خارجہ کی ہے ، مولانا فضل الرحمن گزشتہ ساڑھے آٹھ سال سے کشمیر کمیٹی کے عہدے پر برجمان ہیں ،وفاقی وزیر کے برابر مراعات ، پروٹوکول اور منسٹر کالونی میں گھر رکھنے کے باوجود انہوں نے ابھی تک کشمیر کمیٹی کے صرف 6 اجلاس بلائے ،جولائی 2016 تک صرف 3 اجلاس بلائے گئے تھے۔
5th February – Kashmir Day
قومی اسمبلی کی 32 قائمہ کمیٹیوں میں سب سے زیادہ بجٹ رکھنے والی کشمیر کمیٹی کو سالانہ 6 کروڑ ملتے ہیں ، ملازمین اور چیئرمین کمیٹی کی تنخواہیں اس کے علاوہ ہیں ، اس تمام کے باوجود مولانا فصل الرحمن کشمیر کاز کے لئے سوائے چند مذمتی بیانا ت کے کچھ نہیں کرسکے ، اس حوالے سے انہیں شدید تنقید کا بھی سامنا رہا ، مولانا کا سمجھ آنے والا اختلاف یہ ہے کہ وہ کشمیر کمیٹی کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسے کشمیر پالیسی کی تشکیل کا اختیا ر دیا جائے ، اگر وہ اختیار نہیں مل رہا تو مولانا کو چاہیے تھا کہ وہ کمیٹی کی بنیادی ذمہ داری انجام دیتے اور کشمیر کاز کو اجاگر کرنے کے لئے کام کرتے، اور اگر احتجاجاََ وہ بھی نہیں کرنا تھا تو بہتر تھا کہ مستعفی ہوجاتے، لیکن وہ مستعفی بھی نہیں ہوئے اور سخت تنقید کے بعد بلاآخر گزشتہ روز کشمیر کانفرنس سے خطاب کے دوران زبان کھولی اور بولے کہ وزیر اعظم پاکستان ،وزارت خارجہ ، پارلیمنٹ ، آزاد حکومت، وزارت امور کشمیر اور کشمیر کونسل سے کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ آپ نے کشمیر کاز کے لئے کیا کیا ؟ صرف کشمیر کمیٹی سے ہی کیوں پوچھا جاتا ہے ؟ ہمارے ہاں اداروں میں رابطے کا فقدان ہے پارلیمنٹ کو نہیں پتہ کہ دفتر خارجہ کی کیا پالیسی ہے ، دفتر خارجہ کو نہیں پتہ ہوتا کہ پارلیمنٹ کس پارلیمنٹیرین کو کشمیر کاز کے لئے بھیج رہی ہے۔
مولانا نے بڑی خوبصورتی کیساتھ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براہ ہوتے ہوئے تمام ملبہ اداروں پر ڈال دیا، حالانکہ جواب یہ ہونا چاہیے تھا کہ کشمیر کمیٹی نے یہ یہ سنگ میل عبور کیا ، دیگر اداروں سے پوچھا جائے کہ انہوں نے کیا کیا ،وزارت خارجہ نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر پہلی مرتبہ مغربی ممالک کے سفیروںاور مسلم ممالک کے سفیروں کے لئے بریفنگ کا انعقاد کیا اور دیگر اہم بریفنگز بھی دیں گئیں ،اس حوالے سے بیرون ممالک پاکستانی سفیروں کے لئے بھی کشمیر پالیسی کے تحت بریفنگ دینے کی ضرورت ہے ، وزیر اعظم کے ارعلان کے مطابق مسلہکشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے 22 اراکین پارلیمنٹ کو دنیا کے مختلف ممالک بھیجا گیا ، لیکن اس حوالے سے کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی کہ ان اراکین پارلیمنٹ نے کیا کامیابی حاصل کی ، اس حوالے سے حکومت کو تنقید کا سامنا بھی رہا ، کیوں کہ کشمیر یوں کی ترجمانی کے لئے بھیجے گئے وفد میں ایک بھی کشمیر ی شامل نہیں تھا ، جہاں تک بات ہے آزاد حکومت کی تو آزاد حکومت تن تنہا کچھ نہیں کر سکتی۔
آزاد کشمیر میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر ایک کل جماعتی کانفرنس بلائیں اور اس بار مذمت سے آگے کا کچھ سوچیں جس سے پا ر کے کشمیریوں کی کچھ حوصلہ افزائی ہو سکے ، آل پارٹیز کا نفرنسیں پہلے بھی ہوچکی ہیں لیکن لگتا نہیں کہ کشمیر کی تمام جماعتیں ایک پیج پر ہیں ، گزشتہ روز ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں پی ٹی آئی کے صدر بیرسٹر سلطان محمود کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر لائن آف کنٹرول توڑنے کا اعلان کریں ، اس پار اور اس پار کے کشمیر ی جب مشترکہ طور پر لائن آف کنٹرول کی طرف بڑھیں گے تو یہ کنٹرول لائن دیوار برلن کی طرح گر جائے گی ، انہوں نے انٹرا کشمیر ڈائیلاگ کی بھی تجویز دی ،سردار عتیق نے بھی ان کی تائید کی اور کہا کہ انہوں نے لائن آف کنٹرول توڑنے کی کال دے رکھی تھی جو دیگر جماعتوں کی درخواست پر منسوخ کی اپریل میں دیگر جماعتوں کیساتھ مل کر لائن آف کنٹرول توڑیں گے۔
سردار عتیق نے کہا کہ میں نے وزیر اعظم پاکستان کو حریت قیادت کو پاکستان دورے کی دعوت دینے کی تجویز دی ہے ، اس سے کشمیریوں کے حوصلے بلند ہوگے ، وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں کو سوچ کر چلنا ہوگا، پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہاں سے لائن آف کنٹرول توڑی جائے گی تو کیا بھارت خاموش رہے گا ؟ ہر گز نہیں ، ہمیں پرانی سوچ ترک کرکے نئے طریقے سے تحریک کو آگئے بڑھانا ہوگا ،وکی پیڈیا پر بھی بھارت کی چلتی ہے ،ہمیں سوشل میڈیا کے محاذ پر متحرک ہونا ہوگا ، نوجوانوں کو لیپ ٹاپ اس لئے نہیں دیئے کہ وہ فضول چیٹ میں وقت ضائع کریں ، صدر آزادکشمیر سے بھی گزشتہ دنوں بات ہوئی تو ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ اب ہمیں نوجوانوں کو ٹرین کرنا ہوگا اور سوشل میڈیا کے محاذ پر کام کرنا ہوگا، بلکہ وہ ایک قدم آگے نوجوانوں کے تھینک ٹینک بنانے کی بات بھی کرتے ہیں ، یہ واقعی وقت کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں میرپوری یونیورسٹی کی طرف سے گزشتہ سال جون میں اسلام آباد میں عالمی کشمیر کانفرنس بلائی گئی تھی ، رجسٹرار میرپور یونیورسٹی مرزا وار ث کا کہنا تھا کہ ہم نوجوان نسل کو تربیت دے رہے ہیں کہ وہ ٹیکنالوجی کا استعمال اشوز پر کیسے کریں ، میرپوری یونیورسٹی کی طر ف سے بلائی جانے والی کانفرنس نوجوان نسل کو مسئلہ کشمیر سے ہم اہنگ کرنے میں انتہائی اہم رہی ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دیگر اداروں اور ریاستی کی دیگر جامعات کی طرف سے ایسی کانفرنسیں کیوں نہیں بلائی گئیں ، اس سلسلے میں سب سے بنیادی ذمہ داری آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی ہے کہ وہ ایک اے پی سی بلائیں اور اختلافات کو ایک طرف رکھ کر مشترکہ پوائنٹس کو لے کر آگے چلیں اور ایک لائحہ عمل دیں ، کشمیر یوں پر ہونے والے ظلم کو کیسے اجاگر کرنا ہے ،جس پر سب سے پہلے آزاد کشمیر کی حد تک عمل درآمد کیا جائے اور پھر پاکستانی حکومت کو بھی اعتما د میں لیا جائے ، آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کو پہل کرنا ہو گی۔