کشمیر (جیوڈیسک) بھارتی زیر انتظام کشمیر میں سال 2018ء گزشتہ ایک دہائی کے دوران سب سے خونزیر سال ثابت ہوا ہے۔ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وادی میں مستقبل میں بھی صورتحال گھمبیر رہے گی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ماہرین کے حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے شدت پسند تنظیموں اور نئی دہلی کی جانب سے 2019ء میں مزید شدید کارروائیوں کی تیاری کی وجہ سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا مستقبل خوفناک دکھائی دیتا ہے۔
کشمیری سیاستدان اور آزاد بھارتی ماہرین کا خیال ہے کہ پانچ لاکھ فوجیوں کی موجودگی اور 2019ء میں بھارت میں انتخابات کی وجہ سے کشمیر میں خونریزی میں کمی کی امید کم ہی ہے۔
بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں سول سوسائٹی کی ایک سرکردہ تنظیم جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی ( جے کے سی سی ایس) کے مطابق سال دو ہزار اٹھارہ اس ریاست کے لیے گزشتہ ایک دہائی کا سب سے ہلاکت خیز سال ثابت ہوا۔ جے کے سی سی ایس کے مطابق گزشتہ برس اس منقسم خطے کے بھارت کے زیر انتظام حصے میں سکیورٹی دستوں کی کارروائیوں، مسلح حملوں اور عوامی مظاہروں سمیت بدامنی کے سینکڑوں واقعات میں کل پانچ سو چھیاسی افراد ہلاک ہوئے۔
آزاد بھارتی ماہرین کا خیال ہے کہ پانچ لاکھ فوجیوں کی موجودگی اور 2019ء میں بھارت میں انتخابات کی وجہ سے کشمیر میں خونریزی میں کمی کی امید کم ہی ہے۔
اس تنظیم کے مطابق ہلاک شدگان میں سے دو سو سڑسٹھ عسکریت پسند تھے اور ایک سو ساٹھ عام شہری۔ مارے جانے والے عام شہریوں میں اکتیس بچے بھی شامل تھے۔ باقی ہلاک شدگان بھارتی پولیس یا سکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ اس تنظیم کے مطابق گزشتہ برس کشمیری عسکریت پسندوں اور بھارتی دستوں کے مابین آٹھ سو کے قریب مسلح جھڑپیں ریکارڈ کی گئیں۔
اس فہرست میں وہ ان افراد کو شامل نہیں کیا گیا ہے، جو سرحد پر پاکستان اور بھارت کی افواج کے مابین ہونے والے فائرنگ میں ہلاک ہوئے۔