کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی کشمیر کے بیشتر رہنماؤں نے حد بندی کمیشن پر بی جے پی کے مفاد کے لیے کام کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ کمیشن نے جموں کے لیے چھ اضافی نشستیں جبکہ وادی کشمیر کے لیے صرف ایک نشست کی تجویز پیش کی ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے ریاستی اسمبلی کی نشستوں کی از سر نو حد بندی کرنے والے کمیشن کی ڈرافٹ رپورٹ کو ناقابل قبول قررار دیتے ہوئے شدید نکتہ چینی کی ہے۔ رہنماؤں نے رپورٹ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حد بندی کمیشن پر حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے مفاد کے لیے کام کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
جموں و کشمیر کی اسمبلی کی سیٹوں کی از سر نو حد بندی کرنے والے کمیشن نے کئی ماہ کی شد و مت کے بعد پیر کے روز خطے کے ارکان پارلیمان سے ملاقات کی اور اپنی مسودہ رپورٹ میں جموں خطے کے لیے چھ سیٹوں جبکہ وادی کشمیر کے لیے صرف ایک سیٹ کے اضافے کی تجویز پیش کی۔
اگر یہ تجویز تسلیم کر لی جاتی ہے تو پھر جموں علاقے میں اسمبلی کی سیٹیں 37 سے بڑھ کر 43 ہو جائیں گی جبکہ وادی کشمیر میں 46 سے بڑھ کر 47 ہو جائیں گی۔ حد بندی کمیشن نے اس سلسلے میں اپنے دیگر اراکین سے تجاویز آئندہ 31 دسمبر تک جمع کرانے کو کہا ہے۔
جموں و کشمیر اسمبلی کی مجموعی طور پر ابھی 83 سیٹیں ہیں۔ اس سے قبل لداخ سمیت جموں و کشمیر کی اسمبلی کی کل سیٹیں 87 ہوتی تھیں تاہم 2019 میں لداخ کو جموں سے الگ علاقہ بنا دیا گيا جس کی وجہ سے لداخ کی چار نشستیں اس سے جدا ہو گئیں۔
اب اگر حد بند کمیشن کی تجاویز کو تسلیم کر لیا جاتا ہے تو جموں و کشمیر کی اسبملی کی مجموعی سیٹیں 90 ہو جائیں گی تاہم اس میں سے ایک درجن سے زیادہ نشستیں مختلف اقلیتی طبقوں کے لیے مخصوص ہوں گی۔
سیاسی رہنماؤں کا رد عمل کشمیر کی ہند نواز سیاسی رہنماؤں نے حد بندی کمیشن کی ان تجاویز پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ادارہ حکمراں جماعت بی جے پی کے مفاد کے لیے کام کر رہا ہے۔
پانچ پارٹیوں کے اتحاد ‘پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) نے منگل کے روز اپنے ایک مشترکہ بیان کہا کہ حد بندی کمیشن کا مسودہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے مفاد میں نہیں ہے اور یہ دونوں علاقوں کو تقسیم کرنے والا ہے۔
جموں میں پی اے جی ڈی کے کنوینر یوسف تاری گامی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا، “مرکز نے غیر جمہوری طریقے سے دفعہ 370 کو منسوخ کر دیا۔ ہم نے حکومت کے غیر آئینی فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ حکومت کو حد بندی کی مشق سے پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔”
تاری گامی کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کے انتخابی نقشے کو تبدیل کرنے کے بی جے پی حکومت کی جو کوششیں ہیں اس سے مقامی لوگوں کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہا، “یہ لوگوں کو تقسیم کرنے کا بی جے پی کا ایک گیم پلان ہے۔ اگر حد بندی کمیشن کی رپورٹ کو نافذ کیا گیا تو جموں و کشمیر کا بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ اس طرح کے فیصلے ‘دل کی دوری’ میں اضافے کا سبب بنیں گے۔”
اس سے قبل ریاست کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں اس پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا، “حد بندی کمیشن کے بارے میں میرے خدشات غلط نہیں تھے۔ وہ مردم شماری کو نظر انداز کرتے ہوئے لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور ایک خطے کے لیے چھ اور کشمیر کے لیے صرف ایک سیٹ تجویز کر رہے ہیں۔”
سابق وزیر اعلی اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے بھی اپنی ٹویٹ میں حد بندی کمیشن کی تجاویز کو انتہائی مایوس کن قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، “ایسا لگتا ہے کہ کمیشن نے اعداد و شمار کے بجائے بی جے پی کے سیاسی ایجنڈے کی بنیاد پر اپنی سفارشات پیش کی ہیں، جبکہ اسے اعداد و شمار کی بنیاد پر اسے ترتیب دینا چاہیے تھا۔”
پی اے جی ڈی اتحاد نے حد بندی کمیشن کی رپورٹ کے خلاف یکم جنوری کو سری نگر میں پرامن مظاہرہ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
مودی حکومت نے 2019 میں کشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات ختم کر دیے تھے اور ریاست کو جموں و کشمیر اور لداخ کے نام سے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ تاہم اب عالمی دباؤ کے تحت حکومت وہاں انتخابات کروانا چاہتی ہے۔
لیکن یہ کرنے سے پہلے اس نے حد بندی کمیشن تشکیل دیا جس نے ہندو اکثریتی علاقے جموں میں چھ سیٹیں بڑھانے کی سفارش کی ہے جبکہ مردم شماری کے مطابق زیادہ آبادی وادی کشمیر میں ہے، جہاں صرف ایک سیٹ ہی بڑھانے کی تجویز ہے۔ ماہرین کے مطابق بی جے پی انتخابات کے بعد اس مسلم اکثریتی علاقے میں بھی اپنی حکومت چاہتی ہے تاکہ وہ اسے اپنے حساب سے کنٹرول کر سکے اور اسی لیے وہ یہ تمام کوششیں کر رہی ہے۔