کشمیر (جیوڈیسک) انڈیا کے زیر انتظام کشیمر میں شدت پسندوں کے سکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد سے سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے اور مزید دس ہزار اضافی افواج کو تعینات کیا گیا ہے۔
بدھ کی شب فوج کی حراست میں ایک شخص کی ہلاکت کے بعد وادی میں حالات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں کشمیر میں حکومت مخالف احتجاجی تحریک 41 روز سے جاری ہے جیسے دبانے کے لیے کوشیش مزید تیز کر دی گئی ہیں۔
ہندووں کی سالانہ امرناتھ یاترا کے اختتام کے ساتھ ہی یاترا کی حفاظت پر مامور دس ہزار فورسز اہلکاروں کی اضافی فورس کو وادی کے مختلف مقامات پر تعینات کیا جا رہا ہے۔ اس دوران پیٹرول اور ڈیزل کی تقسیم روک دی گئی ہے جبکہ شہروں اور قصبوں میں دودھ، سبزیوں اور دوسری اجناس کی سپلائی کو بھی روکا جارہا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ اُس نے اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کے سامنے کشمیر کا مسئلہ اُٹھایا ہے۔ جمعرات کو پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے کہا کہ وزیراعظم کشمیر کے مسئلے کو آئندہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اُٹھائیں گے۔
پاکستان نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جاری بدامنی پر بات کرنے کے لیے انڈیا کو مذاکرت کی دعوت دی ہے جبکہ انڈیا کا اصرار ہے کہ مذاکرات کا محور ’سرحد پار دہشتگردی‘ ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز جموں و کشمیر کے ضلع بارہ مولہ میں فوج کے قافلے پر شدت پسندوں کے حملے میں دو فوجیوں سمیت تین سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔ پولیس کے مطابق اس حملے میں تین سکیورٹی اہلکار زخمی بھی ہوئے تھے۔
جس کے بعد پولیس نے حملہ آوروں کو پکڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کر رکھی ہے۔
دوسری جانب کشیمر کی مقامی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ بیان میں فورسز کی فائرنگ میں ہوئی ہلاکتوں کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ مسلح کمانڈر برہان وانی کے جانشین نے لوگوں سے احتجاجی تحریک جاری رکھنے کی تلقین کی ہے۔
واضح رہے آٹھ جولائی کو پولیس کے آپریشن میں برہانی وانی کی ہلاکت کے بعد ہی کشمیر میں حکومت مخالف احتجاج کی لہر پھیل گئی جس پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
اس احتجاجی تحرتک میں اب تک 60 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں اور دو ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔