آج کشمیر کی صورتحال سب کے سامنے ہے،سب کچھ عیاں ہے،کچھ بھی چھپاہوا نہیں، کشمیر میں کیا ہوا ،کیا کیا ہو رہا ،کیا کیا ہونے جارہا اور کیا کیا ہونے والا،سب منظر نمایاں،اگر کچھ دھندلا ہے تو ہمارے خیالات و وچار ،سوچ و فکر کے دھارے ،ہمارے دیکھنے اور پرکھنے کے انداز۔۔۔ورنہ کون نہیں جانتا کہ کشمیر کی صورتحال کیسی ،وہاں کیا ہوتا رہااور کیا ہورہا،آج جو کچھ کشمیر میں ہورہا ،ہم اُسے پوری دنیا کو دکھارہے ،بتا رہے،سمجھا رہے ،کیا نہیں جانتے کہ یہ سب ،شاید اِس سے بھی زیادہ بھیانک مناظر ہم اِس دنیا کو 72سالوں سے زائد عرصہ سے بتا رہے ،دکھا رہے ،سمجھا رہے ،کیا حاصل ہوا،کچھ بھی تو نہیں۔
کشمیری نوجوان شہید ہوتے رہے ،ہورہے،کشمیری مائیں کشمیر میں آہ و بکا کررہی ،اب بھی جاری،عورتوں کی عصمت دری ہوتی رہی ،اب بھی ہورہی،بچوں ،بوڑھوں ،جوانوں ،عورتوں کی پیلٹ گنز سے بینائیاں چھینی جا تی رہی ،اب بھی یہ عمل جاری و ساری،ہماری باتوں کا دنیا کے اِن منصفوں پر کتنا اثر ہوایا انہوں نے ہماری باتوں کا کتنا اثر لیا ،کچھ بھی تو نہیں۔
کشمیر کے حالات پہلے بھی ابتر تھے اوراب بھی خراب ،انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پہلے بھی ہورہی تھی اور اب بھی نہ رکنے والی،مائوں ،بہنوں، بیٹیوں کی عزت اب بھی وہاں تارتار،سلسلہ رکا نہیں ،بڑھا ہے، پیلٹ گنز سے چھوٹے سے لے کر بڑے تک کی بینائیاں چھیننے کا عمل پہلے بھی جاری تھا ،اب بھی چل رہا،شہادتوں کا سلسلہ پہلے بھی تھما نہیں تھا ،اب بھی رکا نہیں،کس کس ظلم کو روک پائے یہ دنیا کے غمخوار،کوئی ایک تو بتائیے۔
اِن کے کہنے پر کتنی بار مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھے،ڈھونک مذاکرات کی زینت بنے،اقوام عالم کے کہے پر بارہا چلے ،اِن کی دی ہوئی ہر تجویز وآراء کا خیر مقدم کیا،انہوں نے جو بولا،کیا،مگر ملا کیا، کچھ بھی تو نہیں۔ کشمیر کا مسئلہ 72 سالوں سے سلامتی کونسل میں وہاں پڑا، گل سڑرہا،اِن 72 سالوں میں اِس مسئلے کا کوئی حل نہ نکلا،نہ نکالا،اب اِن اداروں سے اُمید کیسی؟کیا یہ ادارے اِس مسئلے کا حل کر پائے ،کیا یہ ادارے مسئلہ کشمیر پر سنجیدہ ،قطعی نہیں،تو پھر اِن کے وعدوںپر اعتبار کیسا؟کیا انہوں نے کشمیر کے حوالے سے اب تک کوئی بھی اچھا اقدام کیا،کیا اِس مسئلے کے حوالے سے کوئی اچھی خبرکبھی دی؟ ،نہیں۔۔۔اِن مدتوں سے سوئے ہوئے اداروں پرسب جانتے بوجھتے بھی کہ آپ کے تحفظات کے امین نہیں ،آپ کا تحفظ نہیں کریں گے ،پھر بھی اِن پر اتنا تکیہ کیوں،کیا سوچ کر ،سب کچھ کھو کر بھی ابھی بھی ”کشمیر کی شمع اساں جلائی ہوئی ہے”جبکہ ہم اِس کی جی جان سے حفاظت نہ کرسکے،اِس کے متعلق بروقت درست فیصلے نہ لے سکے،اِس کو انہوں نے تو لٹکایا ہی تھا ،ہم نے بھی اِسے لمبا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی،ہم نے اپنے منافقانہ طرز عمل اور اپنے سکھ چین کے لیے کہ کشمیر جل رہا ہے تو جلتا رہے ،ہم تو سکھ چین سے ہیں اورسب سے بڑھ کر کہ انڈیا کے شر سے بھی محفوظ،ایمان سے بتانا کیا ایسا نہیں ہے؟
کیا ہم چاہتے تو کیا کشمیر اب تک آزاد نہ ہوچکا ہوتا،سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نے اِن 72 سالوں میں کشمیر یوںکی اخلاقی و سفارتی حمایت تو بہت کی مگراِن کی آزادی و خود مختاری کے لیے حقیقی طور پر کوئی پیش رفت نہ کی،ہم کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے کی حد تک ہی رہے ،کشمیر بن جائے پاکستان کے لیے کم ہمت اور سست ہی رہے،کیا ایسا نہیں ہے؟ ہم کشمیریوں کے لیے سیمینار ،کانفرنسز ،ریلیوں،یکجہتیوں،بلندوبانگ دعوئوں تک ہی محدود رہے مگر عملی طور پر کچھ نہ کیا۔معروف مصنفہ،سٹوری رائٹر،ڈرامہ نگار،ناول نگار،کالم نویس صباء ممتاز بانو فرماتی ہیں ”کشمیر بنے گا پاکستان ،کشمیر کوپاکستان بنانے کی تمام ترمساعی ہم نے مظلوم کشمیریوں پر چھوڑ رکھی”،اگر اِن مظلوم ،ستم کے مارے کشمیریوں کی مدد مجاہدین نے کرنا چاہی تو ہم نے اُن کا بھی ناطقہ بند کردیا،جو مدد قرآن پاک کی تعلیمات کی روشنی میں ”ہلکے ہویا بوجھل، نکلواُن کے لیے ،جو کمزور سمجھ کر دبا لیے گئے ہیں ”ملتی تھی ،اُس کی راہوں میں بھی رکاوٹ بن گئے،قوم کا فخر ،محب وطن افراد پر شکنجہ کس دیا گیا،اُن پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا،ملا تو کیا ملا،کچھ بھی نہیں۔
ممتاز صحافی معروف کالم نویس رشید احمد نعیم کہتے ہیں کہ” جب اپنے ہی گھر کے شیر مروانے لگ جائوں تو قوموں پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اُن پر کتے بھی بھونکنے لگتے ہیں،یہی کچھ ہمارے ساتھ ہو”۔ہم آج اپنوں میں بھی اکیلے ہیں،دشمن غضب کی چال چل گیا،دشمن کا فائدہ نہیں اور اپنوں کا اعتبار جاتا رہاکہ آج ایک عجیب مخمصے میں پھنسے ،کشمیر کی ڈوبتی صورتحال میں ”تھے تو وہ تمہارے ہی آباء مگر تم کیا ہو”آہ و بکا کررہے ہیں،جس کی صدائیں دنیاکے چہار سو پھیلی ہوئی ہیں، ہنسی مذاق و جگ ہنسائی کے طور پر دشمن ہماری کمزور و پتلی حالت پر مسکرا رہا،شاداں و فرحاںنظر آتااور ہم اُسے نجات دہندہ سمجھتے اُس کے درپر کھڑے اُس کے دروازے پر دستک دے رہے،یہ سوچ کر کہ وہ ہماری مدد کو آئے گا،مگر کیا سوچ کر ہم وہاں گئے ،یہ سوچ کر کہ ہم کمزور ہیں،کچھ کر نہیں سکتے،یہ سوچ ہے ہماری،ایک وہ سوچ تھی ،373 تھے اور بھاری فوج کا سامنا اور مصائب کے پہاڑمگر فتح و کا مرانی نے مقدر چومے،زیادہ دور نہ جائیے،افغان مجاہدین کو ہی دیکھ لیں،وہ کسی سے نہ گلا کرتے،نہ شکوہ و شکائت،نہ ہی کوئی پیغام نہ ہی کوئی مذاکرات،صرف اور صرف جہادکرتے اور ساری دنیا میں سربلند ہیں،صرف جہاد کی بدولت آج عالم یہ ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور اُس کے قدموں میں بچھی پڑی ہے اور ایسا اِس لیے ہے کہ وہ ایک جنگجو قوم کے باشندے ہیں،جو مذاکرات کی بھول بھلیوں کو نہیں مانتے، صرف جہاد کی بات کرتے ،اپنے دشمن کو جہاد کی زبان میں سمجھاتے،یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کا” خدا”بنا امریکہ ا’ن کے سامنے ”بھیگی بلی”بنے”جانے بھی دیجیئے صاحب”جیسی فریاد وکناں لیے پاکستان کے ذریعے اُس کے سامنے کھڑا ،کیا یہ سب مذاکرات سے ہوا؟
قرارداد،مزمتوں،خطوط،ٹیلی فون سے ہوا؟نہیں صرف اور صرف افغان کے جذبہ ایمانی اور جہاد کی بدولت،صحیح اوردرست راستہ یہی ہے،کیا اِس کے علاوہ بھی کوئی اوردرست راستہ ہے تو بتائیے؟ہرگز نہیں ،کوئی راستہ بھی ایسا نہیں ہے جو کامیابی کا راستہ ہو اور جہاد کے راستہ سے نہ جاتا ہو،جہاد ہی میں کامیابی ہے اور یہی وہ راستہ ہے کہ جس سے ہر راستہ نکلتا،بغیر جھکے،بغیر کہے اورسوچوں کے عین مطابق مگر شرط یہ ہے کہ اِس پر چلا جائے ، ممتاز ماہر تعلیم محمد یوسف انور کا کہنا ہے کہ ”آبائوجداد کی تاریخ بتاتی ہے کہ اِسی راستے پر چل کر ہی انہیں آزادی و کامیابی ملی،ہم کشمیر کو کھونے کے ہر گز متحمل نہیں ہوسکتے اور یہ کہ اگر کوئی اِسے ہم سے چھیننا چاہتا ہے تو اُسے جہاد کی برکت سے روکنا ہوگااوراگرہم نے پھر سے یہ راستہ اپنا لیا تو کچھ بعید نہیں کہ منزل کچھ دور نہیں رہ جائے گی اور اِس کی بدولت وہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا ،جلدبا دیر ،کشمیر بھی ملے گا اور اُس کے ثمرات بھی اور دنیا کے آگے جھکنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی،اِس لیے کہ پھر دنیا آپ کے سامنے خود جھکنے پر مجبور ہوگی،آپ کو اپنا حق لے کر دے گی یا خود ہی آپ اُن سے اپنا حق چھین لیں گے اوریہ وہ وقت ہوگا ،جس سے،کشمیر بنے گا پاکستان”۔