تحریر: سجاد علی شاکر برصغیر کی تقسیم کے وقت کشمیری اپنی آنکھوں میں آزادی کے خواب سجائے بیٹھے تھے مگر لارڈ ماونٹ بیٹن نے بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو کے ساتھ مل کر سازش کے ذریعے کشمیر کو بھارت میں مد غم کرنے کا پلان تیار کر لیا۔ در حقیقت تقسیم ہند کے فارمولے کی روح سے ہندو یا مسلم اکثریت علاقوں کی بنیا د پر انہیں بھارت یا پاکستان کا حصہ بننا تھا مگر ریاستوں کے معاملے میں چونکہ بدنیتی کا عنصر شامل تھا ان کے بارے میں کوئی واضح فیصلہ نہ کیا گیا۔پاکستان آزاد کشمیر’ مقبوضہ کشمیر اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری ماہ فروری میں یوم یکجہتی کشمیر مناتے ہیں۔ یہ دن مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کے خلاف 5 فروری 1990ء سے منایا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے غیور مسلمان قیام پاکستان سے پہلے بھی ہندو راج سے اپنی آزادی کیلئے ٹکراتے رہے۔ 1947ء میں مظلوم کشمیریوں کو اپنی آزادی کی امید ہوئی لیکن عرصہ دراز وعدوں’ قراردادوں’ یادداشتوں’ مظاہروں اور مذاکرات میں نکل گیا ہندوستان نے اٹوٹ انگ کی رٹ اور اقوام متحدہ نے بے حسی نہ چھوڑی تو 1990ء میں کشمیری نوجوانوں نے جہاد کا پرچم تھام کر قابض ہندو فوج سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا۔ آفرین ہے اس 26 سالہ جدوجہد آزادی پر جو آج بھی پہلے دن کی طرح تازہ’ پرعزم اور استقامت کا پہاڑ بن کر وادی کشمیر میں اپنی جگہ جاری و ساری ہے۔
یہ ان کشمیری عوام کی حق خودارادیت کے حق میں مظاہرے و جلسے منعقد ہوں گے اور جلوس نکالے جائیں گے جن میں بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی جائے گی۔ اپوزیشن اور حکومت پاکستان نے بھی اس روز کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کا اعلان کر رکھا ہے۔ کشمیریوں سے یکجہتی کا اعلان خوش آئند اقدام ہے لیکن یہ یکجہتی محض زبانی حد تک رہ گئی ہے۔ایک مرتبہ پھر ‘ یوم یکجہتی کشمیر’ آگیا ہے، ١٩٩٠ء میں کشمیر میں ہونے والے بہمانہ قتل عام جس میں ہزاروں افراد بھارتی افواج نے قتل کئے آج کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف جو اس وقت کے حزب اختلاف کے لیڈرتھے کی اپیل پر ملک گیر ہڑتال کی گئی، اور اسوقت کی وزیر اعظم مرحومہ بے نظیر بھٹو نے ملک میں اس دن عام چھٹی اعلان کیا۔ عام چھٹی کا اعلان اس طرح کے دنوں میں اسلئے کیا جاتا ہے کو لوگ اپنے کاروبار، ملازمتوں، مدرسوں کی مصروفیات میں ختم کرکے اس دن کی مناسبت سے اجتماعات ، منعقد کریں مگر ہم، ”چھٹی” مناتے ہیں اور گھر میں آرام کو ترجیح دیتے ہیں۔
Kashmir Solidarity Day
یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے اس دن نہ صرف اپنے اندر کشمیری شہیدوں کی قربانیوں کی یاد تازہ کرنا ضروری ہے ، بلکہ ہمارا جغرافیائی طور پر ہمارا اولین فرض بنتا ہے کہ ہم آزادی کشمیر کیلئے ہر محاذ پر جو بھی ہوسکتا ہے وہ کام کریں جس سے کشمیر میں شہید ہونے والوں کی روح بھی خوش ہو۔ جب پاکستان کا یوم آزادی آتا ہے تو کشمیری اپنے گھروں پر پاکستان کاسبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں جس سے انکی پاکستان سے محبت عیاں ہوتی ہے یہ مظلوم د ونوں صورتوں میں ظالم ہندووں کے ظلم کا نشانہ بنتے ہیں، گولی کھاتے ہیںِِ، لاٹھیاںکھاتے ہیں، کشمیری عوام کی اس تمام جدوجہد اور قربانی کے بعد ہمارے ذمہ داریا ںکیا ہیں ؟؟ کیا ہم بہ حیثیت قوم کشمیری عوام کی اس محبت کا جواب دے رہے ہیں؟ ہرگز نہیں بہ حیثیت عوام تو پاکستان کا ایک ایک بچہ کشمیر کیلئے قربانی دینے کو تیا ر ہے۔
مگر جب کشمیری عوام قتل و غارت گری ہمارے اپنے ملک میں دیکھتے ہونگے تو انکی کتنی حوصلہ شکنی ہوتی ہوگی، قائداعظم محمد علی جناح کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا اس عظیم رہنماء کے سامنے پاکستان کا کل تھا، آج ہم محسوس کرتے ہیں کہ قائد اعظم نے شہ رگ کیوں قرار دیا تھا آ ج مکار بھارت ہمارے دریاوں کو سوکھا کررہا ہے ، کشمیر کے ذریعے ہمارے پانی پر غاصب ہے جس سے آنے والے دنوںمیں ہماری فصلیں سوکھ جائینگی ، جب زراعت ختم ہوگی تو بھوک و افلاس کا دور ہی ہوتا ہے۔ مگر بد قسمتی سے بیرونی ایجنڈوں کا اپنا منشور بنانے والے ہمارے حکمران یہ بات نہیں کہ اس سے باخبر نہ ہوں وہ اچھی طرح باخبر ہیں مگر ہندوستان کی دوستی کا دم بھرتے ہوئے نہیں تھکتے، ہندوستان مذاکرات کا ڈرامہ رچاکر، کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے، کشمیری عوام پر اپنے ظلم میں کوئی کمی کرنے کو تیار نہیں، ہمارے حکمران گزشتہ 69 سال سے کشمیر پراپنا موقف برقرار نہ رکھ سکے۔
India
جس سے بھارت کے عزائم میں اضافہ ہوا اس نے اپنے آئین میں کشمیر کواپنا صوبہ بناڈالا، اس سے بڑی ڈھٹائی کیا ہوسکتی ہے ؟ وہ عالمی ادارے جنکی یہ مسئلہ اولین ذمہ داری ہے، جس میں اقوام متحدہ ، اور اسکی نام نہاد، سلامتی کونسل” اس مسئلے پر آنکھیں بند کئے ہوئے جبکہ اس کے پاس قرار دادیں موجود ہیں جس میں خود بھارت نے رائے شماری ، اور کشمیر سے بھارتی افواج کے انخلا کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ کشمیری نسلیں نہرو کی کشمیر پالیسی سے پھوٹنے والے زہر کو پی پی کر جوان ہوئی ہیں۔ جنگ جاری ہے۔
نہ تو کسی کے کان میں منٹو کی آواز پڑتی ہے، نہ مہاتما گاندھی کی اور نہ ہی کسی کو سٹین لے والپرٹ کے اس تجزیے پر غور کرنے کی فرصت ہے کہ اگر گاندھی ہندوستان کے گورنر جنرل ہوتے تو وہ اپنے پرانے دوست جناح کے ساتھ معاملات آسانی سے طے کر لیتے۔ یہ عین ممکن تھا کہ دونوں قتل عام کو روکنے کیلئے کسی فارمولے پر متفق ہوجاتے جو کہ گاندھی کی سب سے بڑی آرزو تھی”۔ کشمیر کا خوفناک مسئلہ نہرو کی ضد کے باعث ہی معرضِ وجود میں آیا۔ نہرو کی ضد نے کشمیر کو ان کی ذاتی اور سرکاری ٹریجڈی بننے نہ دیا مگر کشمیر کو انسانی ٹریجڈیز کا نشان بنا دیا۔ پاکستانی لوگ کشمیر کے ساتھ محبت کرتے ہیں جبکہ بھارتی کشمیر کو اپنی ضد سمجھتے ہیں۔ اِن سب سے بڑھ کر یہ کہ کشمیر اور کشمیری ایک حقیقت ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران کشمیر کا خوفناک مسئلہ نہرو کی ضد سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا جبکہ محبت اور حقیقت بھی پہلے سے زیادہ منہ زور ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والی نسلیں کشمیر کیلئے ضد، محبت یا حقیقت میں سے کس کا انتخاب کرتی ہیں؟
Sajjad Ali Shakir
تحریر: سجاد علی شاکر فنانس سیکرٹری پنجاب ( کالمسٹ کونسل آف پاکستان ) sajjadalishakir@gmail.com 03226390480