جموں کشمیر برصغیر کی اہم ترین ریاستوں میں سے ایک ہے جس طرح حیدر آباد،جونا گڑھ اور مناوا درجیسے مسلم اکثریتی علاقوں پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کیا اسی طرح قیام پاکستان کے اڑھائی ماہ بعد 29اکتوبر1947کو انڈیا نے کشمیر پر لشکر کشی کی اور ریاست ہائے جموں کشمیر پر بھی اپنا تسلط جما لیا۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے پاکستانی افواج کو بھارتی لشکر کشی کا جواب دینے کا حکم دیا تو پاکستانی فوج کے انگریز کمانڈر جنرل ڈگلس گریسی نے روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں 1948ء میں پاکستانی افواج اور قبائلی مجاہدین سری نگر تک پہنچنے والے تھے کہ بھارت یکم جنوری 1948ء کو کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گیاجس پر سلامتی کونسل نے 12 اگست 1948ء اور 5 مئی 1949ء کو دو قراردادیں پاس کیں کہ جنگ بند کر کے دونوں حکومتیں کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلائیں تاکہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کا انتظام کیا جائے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں جنگ بندی ہو گئی۔ اس کے بعد پاکستان کی تمامتر کوششوں کے باوجود بھارت مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کو ٹالتا رہا اور اقوام متحدہ جیسا حقوق انسانی کا علمبردار ادارہ جو مشرقی تیمور کا مسئلہ ہو، مسلمانوں کی رفاہی تنظیموں ، شخصیات واداروں پر پابندیوں کا مسئلہ ہو تو دنوں میں اپنی قراردادوں و فیصلوں پر عملدرآمد کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اس نے کبھی بھارت پر اس طرح دبائو نہیں ڈالا جس طرح انہیں ڈالنا چاہئے تھا۔
یہ نام نہاد عالمی طاقتوں اور اداروں کے بھارت کی طرف جھکائو کا نتیجہ تھا کہ انڈیانے ہمیشہ اس مسئلہ پر روایتی ٹال مٹول سے کام لیا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کی جانب سے نہتے کشمیریوں کے قتل عام کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا، کشمیر میں استصواب رائے کے وعدہ سے انڈیا صاف طور پر مکر گیا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کردیابھارت کا ہٹ دھرمی والا رویہ اور ظلم و ستم دیکھ کر کشمیریوں نے 1989ء میںاپنی عزتوں و حقوق کے تحفظ کے لئے گن اٹھانے کا فیصلہ کیا جس پر چند برسوں میں ہی کشمیری مسلمانوں کی قربانیوں و شہادتوں کے نتیجہ میںمسئلہ کشمیر عالمی سطح پرواضح طور پر ابھر کر سامنے آیا، کشمیری مجاہدین کی عسکری کارروائیوں کے باعث بھارت تکلیف کی شدت سے بلبلا اٹھا تھا، آزادی کشمیر کی منزل قریب دکھائی دے رہی تھی کہ معرکہ کارگل کے دوران پاکستانی حکمرانوں نے واشنگٹن کے دبائو پر پسپائی اختیار کر لی یہ انتہائی مشکل دور تھا کشمیری مسلمانوں کے حوصلے پست ہوچکے تھے۔ ہرطرف مایوسی پھیل رہی تھی۔ کشمیری مسلمان پاکستانی ارباب حل و عقد سے اس بات پرسخت نالاں تھے کہ عین اس موقع پر جب انہیں منزل ملتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی حکومت پاکستان نے امریکی دباؤ پرکشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اورکشمیری مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت کشمیریوں کے مورال کوبلند کرنے اورتحریک آزادی کوکھڑا کرنے کی تھی ابتلا کے اس دور میں وہ کشمیری مجاہدین ہی تھے جنھوں نے بھارتی فوجی ٹھکانوں اورحساس تنصیبات پرفدائی حملوں کااعلان کیا اورپھر کچھ ہی عرصہ میںکشمیری فدائیوں نے بادامی باغ کورہیڈکواٹر، سری نگر ایئرپورٹ ،انڈین ائیربیس اور دیگر مقامات پرایسے تابڑ توڑ فدائی حملے کئے کہ تحریک آزادی کشمیر پہلے سے بھی زیادہ قوت سے ابھرکردنیا کے سامنے آئی اورامریکہ ،برطانیہ و یورپ کے ممالک بھی یہ کہنے پرمجبور ہوگئے کہ اس خطہ میں امن کیلئے مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
Kashmiri Mujahideen
کشمیری مجاہدین کے فدائی حملوں سے بھارت سخت بوکھلاہٹ کاشکارتھا بھارتی آرمی چیف سے لیکر سول حکمرانوں تک سبھی کی زبانوں سے یہ باتیں نکل رہی تھیں کہ فدائی حملوں کاہمارے پاس کوئی توڑ نہیں ہے جوشخص جان ہتھیلی پررکھ کرمرنے کیلئے تیارہوجائے دنیا کی کوئی قوت اس کاراستہ نہیں روک سکتی۔ انڈین آرمی کے آفیسران کی بے بسی دیکھ کرعام بھارتی فوجی سخت خوفزدہ تھے اوربھارتی فوج میں خودکشیوں کارحجان پہلے سے کئی گنابڑھ چکاتھا بھارت کے اندر سے بھی آوازیں بلند ہورہی تھیں کہ حکومت کسی طرح کشمیر سے جان چھڑائے کب تک ہندوقوم اپنے نوجوانوں کی لاشیں اپنے ہاتھوں سے جلانے کاسلسلہ جاری رکھے گی۔یہ وہ دن تھے جب ایک بارپھر تحریک آزادی کشمیر اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی تھی کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اپنے جوبن پرتھی کہ امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ ہوا اور سابق صدر پرویز مشرف ایک ٹیلیفون کال پرسرنڈر کر گئے۔ جہاد اور دہشت گردی میں فرق کرنے والے حکمران جہاد کشمیر کو دہشت گردی سے تعبیر کرنے لگے، نہتے کشمیریوں کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا گیا، شہداء کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور بھارت و امریکہ کے دبائو پر کشمیری جہادی تنظیموں پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ انڈیا بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کی آڑ میں لاکھوں کی تعداد میں فوج پاکستانی بارڈر پر لے کر آیا تو سابق جرنیل نے ایسے ایسے اقدامات کئے کہ جن کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کنٹرول لائن پریکطرفہ سیز فائر کردیا گیا، اعلان اسلام آباد پر دستخط کئے گئے اور بھارت سے یکطرفہ دوستی اور باہمی اعتماد سازی کے نام پر ملکی و قومی خود مختاری اور وقار کی دھجیاں اڑا دی گئیں اور اب حال ہی میں لاکھوں مسلمانوں کے قاتل انڈیا کے ساتھ دوستی نبھاتے ہوئے تجارت کیلئے واہگہ بارڈر کو چوبیس گھنٹے کیلئے کھول دیا گیا ہے اور بھارت سے اپنے ہی دریائوں کی پیدا کردہ بجلی خریدنے کے معاہدات کئے جارہے ہیںلیکن پاکستانی حکمرانوں کی اس قدر بھارت نوازی کے باوجود کشمیری مسلمانوں کی اہل پاکستان سے محبت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ وہ اب بھی پاکستان کے ساتھ رہناچاہتے ہیں۔ وہ اپنی گھڑیاں پاکستانی وقت کے مطابق رکھنا پسند کرتے ہیں، عیدین کا مسئلہ ہو تو ان کی نگاہیں پاکستانی روئیت ہلال کمیٹی کے اعلان کی طرف ہوتی ہیںپاکستانی لیڈر کنٹرول لائن پہنچنے کا اعلان کریں تو وہ اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور ان کی ایک آواز پر لبیک کہہ کر اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے ہوئے کھینچے چلے آتے ہیںیوم پاکستان پر کشمیر کی گلیوں میں پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے اور پاک بھارت کرکٹ میچ ہو تو ان کی تمامتر محبت اور ہمدردیاں پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہوتی ہیں کشمیری قوم کی پاکستان اور اہل پاکستان سے یہی وہ لازوال محبت ہے جس کی وجہ سے بھارت نے کبھی کشمیریوں کو حق استصواب رائے استعمال کرنے کا موقع ہی نہیں دیا۔
بھارت نے چھیاسٹھ برسوں میں ہر ممکن طریقہ سے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد کرنے اور کچلنے کی کوشش کی ہے مگر اس میں کامیاب نہیں ہو سکا بھارتی فوج نے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا، ہزاروں کشمیری مائوں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کی گئی،بچوں و بوڑھوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہزاروں کشمیری نوجوان ابھی تک بھارتی جیلوں میں پڑ ے ہیں۔کشمیر کا کوئی ایسا گھر نہیں جس کا کوئی فرد شہید نہ ہوا ہو یا وہ کسی اور انداز میں بھارتی فوج کے ظلم و بربریت کا نشانہ نہ بنا ہو لیکن اس کے باوجود کشمیری مسلمانوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ بھارت طاقت و قوت کے بل بوتے پرکشمیری مسلمانوں کو غلام بناکر رکھنا چاہتا ہے۔ تاریخ گواہ کے کشمیری قوم 66 برس سے عزم و استقلال کا پہاڑ بن کر بھارت کے ظلم و تشدد کو برداشت کر رہی ہے مگر ان کی بھارت سے نفرت کی شدت میں اضافہ ہی ہوا ہے کوئی کمی نہیں آئی۔ ہم ہر سال 5 فروری کو کشمیری مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں ملک بھر میں جہاں جماعة الدعوة، جماعت اسلامی، آل پارٹیز حریت کانفرنس اور دیگر دینی، سیاسی و سماجی تنظیمیں کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے جلسوں، ریلیوں اور مظاہروں کا انعقاد کرتی ہیں اور کشمیریوں کو یہ پیغام دیتی ہیں کہ کشمیری اکیلے نہیں ہیں پوری پاکستانی قوم ان کی پشت پر کھڑی ہے وہاں پورے ملک میں عام تعطیل اور سرکاری سطح پر بھی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
Nawaz Sharif
صدر، وزیر اعظم سمیت سبھی حکومتی ذمہ داران کی جانب سے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی اور ان کی اخلاقی مدد جاری رکھنے کے بیانات داغے جاتے ہیںلیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اگر آپ ان کشمیریوں کی اخلاقی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں توپھر یہ کوئی اخلاق نہیں ہے کہ آپ کشمیری مسلمانوں کے حق میں دو چار بیانات دے کر خاموش ہو جائیں اور انہیں بھارت کے چنگل میں پھنسا ہوا چھوڑ دیں۔ امریکہ کی اس خطہ میں آمد کے بعد بھارت نے بہت فائدے اٹھا لئے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کی خبروں کی وجہ سے انڈیا کی عسکری و سیاسی قیادت بہت زیادہ پریشان دکھائی دیتی ہے بھارت کوامریکہ کی سرپرستی میں اس خطہ کی سپر پاور بننے کے خواب بکھرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اس کی آٹھ لاکھ فوج خود بھارت کے لئے بہت بڑا بوجھ بنتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں کہ جب مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی ایک بار پھر اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی حکمران کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کشمیریوں کی محرومیوں کا ازالہ کریں اور مضبوط و مستحکم کشمیر پالیسی ترتیب دیں۔ کشمیری مسلمانوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں اس خطہ میں زبردست تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ حکومت پاکستان کو امریکہ و بھارت کے دبائو کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اس مئوقف پر ڈٹ جانا چاہئے کہ جب تک کشمیریوں کو ان کا حق نہیں دیا جاتا بھارت سے کسی قسم کے کوئی معاہدات نہیں ہوں گے۔
Mohammad Ali Jinnah
بانی پاکستان محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کو شئہ رگ قرار دیا تھا اس لئے وطن عزیز کے دفاع کے لئے شئہ رگ کشمیر کو دشمن کے پنجہ سے چھڑانا انتہائی ضروری ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دریائوں پر ڈیم تعمیر کر کے اور دریائوں کا رخ موڑ کر دنیا کی سب سے بڑی پانی چوری کا ارتکاب کر رہا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے 18 کروڑ آبادی میں سے اس کا بیشتر حصہ زراعت کے پیشہ سے وابستہ ہے دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام بھی اللہ نے پاکستان کو ہی عطا کر رکھا ہے مگر اس کے باوجود دریائوں میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہو چکی ہے مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ اس صورتحال میں بھی پاکستانی حکمران وہ جرأت مندانہ کردار ادا نہیں کر رہے جو انہیں اداکرنا چاہئے۔ انڈیا پاکستانی دریائوں پر ڈیم تعمیر کر کے بغیر جنگ لڑے پاکستان کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے ارباب حل و عقد پاکستان کے لئے زندگی اور موت کی حیثیت رکھنے والے اس انتہائی اہم مسئلہ پر بھارت کی ناراضگی کے ڈر سے خاموشی اختیار کر کے ملکی سلامتی و خودمختاری کو دائو پر لگا رہے ہیں۔ ہم صاف طور پر کہتے ہیں کہ لاتوں کے بھوت کبھی باتوں سے نہیں مانا کرتے ہندو بنیا طاقت کی زبان سمجھتا ہے اس کو اسی زبان میں جواب دینے کی ضرورت ہے۔آزادی کشمیر سے ہی پاکستان کے پانی ، بجلی و دیگر مسائل حل ہوں گے حکمرانوں کو بانی پاکستان کا یہ فرمان کہ کشمیر پاکستان کی شئہ رگ ہے یاد رکھنا چاہئے اور دل و دماغ میں یہ بات بٹھا لینی چاہئے کہ اپنی شئہ رگ کو ازلی دشمن ہندو سے چھڑائے بغیر پاکستان کا دفاع ممکن نہیں ہے۔