مقبوضہ کشمیر میں ایک فوجی عدالت کی جانب سے راجپوت رجمنٹ کے سابق کمانڈنگ آفیسر سمیت چھ اہلکاروں کو مژھل فرضی جھڑپ و حراستی قتل کیس میں عمر قید کی سزا دینے کی سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ ابھی تک اس فیصلہ کو منظوری نہیں ملی ہے۔ بھارتی فوج کے آپریشن کمانڈر انچیف شمالی کمان لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہڈا کا کہنا ہے کہ کورٹ مارشل کے دوران سنائے گئے فیصلہ میں درج یہ سفارشات میرے آفس پہنچ چکی ہیں۔ ہمارا شعبہ قانون اس کے مندرجات کا مطالعہ کر رہا ہے جونہی یہ عمل مکمل ہو گا تو اس فیصلہ کو منظوری دینے کا فیصلہ کیاجائے گاتاہم اس وقت دو افسروں سمیت فرضی جھڑپ کیس میں ملوث سبھی اہلکار اپنی اصل یونٹ کے ساتھ ہیں۔ یعنی ابھی تک اس فیصلہ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی مجرموں کو گرفتار کر کے سزا پر عمل درآمدکا آغازکیا گیا ہے مگر بھارتی میڈیا کی جانب سے اس کو بہت زیادہ اچھالا جارہا ہے
دنیا پر یہ ظاہر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ بھارت سرکارنے کشمیر میں عادلانہ نظام نافذ کر رکھا ہے اور اگر بھارتی فوجی بھی جرائم میںملوث پائے جائیں تو ان کے خلاف بھی فیصلے سنانے اور ان پر عمل درآمد سے گریز نہیں کیا جاتا۔ یہ خبریں منظر عام پر آنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارت نواز پارٹیوں اور لیڈروں کی جانب سے بھی دادوتحسین کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں اور دہلی سرکار کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی افسروں کی جانب سے محض ترقیاں اور تمغے حاصل کرنے کیلئے نہتے کشمیریوں کا قتل عام کوئی نئی بات نہیں ہے۔ چھوٹے افسروں کا ذکر تو دور کی بات ہے سابق بھارتی آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ بھی فرضی جھڑپ کیس میں ملوث رہے۔ وہ جب مقبوضہ کشمیر میں فوج کی 5آر آر میں ایک بریگیڈیئر کے عہدہ پر تعینات تھے جس کا ہیڈ کوارٹر اننت ناگ میں تھا تو یکم مارچ 2001ء میں اننت ناگ کے علاقہ میں ہی جنگلات منڈی میں مبینہ طور پر بھارتی فوج اور کشمیری مجاہدین کے مابین خونریز جھڑپ ہوئی جس میں جنرل بکرم سنگھ نے بھی ”حصہ ”لیا اور خود بھی ”زخمی ” ہو گئے۔
اس جھڑپ میں متین چاچا نامی ایک معروف پاکستانی اعلیٰ کمانڈراور پانچ دیگر سرگرم حریت پسندوں کی شہادت کا دعویٰ کیا گیا تاہم بعد میں پتہ چلا کہ وہ پاکستانی کمانڈر اور پانچوں سرگرم کشمیری مقامی نوجوان تھے جنہیں زبردستی اغواء کر کے محض ترقیوں و تمغوں کے حصول کیلئے فرضی جھڑپ کا ڈرامہ رچایا گیا تھا۔ جنگلا ت منڈی کے نام سے معروف ا س فرضی جھڑپ میں خودساختہ زخمی جنرل بکرم سنگھ کو اعلیٰ فوجی اعزار اور انعام و کرام سے نوازاگیا۔ بعد ازاں جب وہ شمالی کمان کے سربراہ بنے اور آرمی چیف بننے کی دوڑ میں شامل ہوئے تو پاکستانی کمانڈر قرار دیکر شہید کیے گئے کشمیری نوجوان کی والدہ اور بہن نے ریاستی ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کر کے شہید نوجوان کی قبر کشائی کی درخواست کی۔اس دوران جنرل بکرم سنگھ ابھی آرمی چیف نہیں بنے تھے
وہ ایک حساس تنازعہ میں گھر گئے۔ اس کیس کی عالمی میڈیا میں بھی بازگشت سنائی دی کہ جسے پاکستانی کمانڈ ر کہا گیا تھا وہ کپواڑہ کا ایک مزدوری پیشہ نوجوان تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے بھی کئے گئے اور جنرل بکرم سنگھ کو فوجی سربراہ بنائے جانے کی سخت مخالفت کی تاہم یہ سب کچھ بے سود رہا۔ ریاستی ہائی کورٹ نے بھارتی وزارت دفاع اور ریاستی حکومت سے بھی وضاحت طلب کی۔ بار بار تاریخوںکا تعین عمل میں لایا جاتا رہا مگر مظلوم خاندان کی کہیں کوئی شنوائی نہ ہو سکی۔ اسی طرح بھارتی فوج کے ہی اعلیٰ افسران اور سول شخصیات نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ جنرل بکرم سنگھ آرمی چیف بننے کے اہل نہیں ہیں کیونکہ انکاماضی داغدار ہے اور وہ صرف جموںکشمیر میں فرضی جھڑپوں میں ہی نہیں بلکہ خاتون کی دست درازی میں بھی ملوث رہے ہیں
ساٹھ صفحات پر مشتمل اس پٹیشن میں جنرل بکرم سنگھ پر فرضی جھڑپوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ کانگو میں دو ہزار آٹھ کے دوران وہ ان فوجی افسران کیخلاف کارروائی کرنے سے قاصر رہے تھے جو وہاں امن فوج میں رہ کر دست درازی اور جنسی تشدد میں ملوث تھے۔ جنرل بکرم سنگھ کی تعیناتی کو محض سیاسی قرار دیکر انہیں آرمی چیف بننے سے روکنے کی استدعا کی گئی تاہم یہ سب درخواستیں بے اثر رہیں اور بالآخر وہ بھارتی آرمی چیف کے عہدہ پر تعینات ہو گئے۔
General Bikram Singh
جنرل بکرم سنگھ کی طرح نئے بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سہاگ پر بھی نہتے کشمیریوںکا خون بہانے کے الزامات ہیں۔ بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) وی کے سنگھ جو خود بھی عمر کے تنازعہ میں الجھے رہے ‘ نے جنرل دلبیر سنگھ پر انتہائی سنگین الزامات لگاتے ہوئے انہیں قاتلوں اور ڈاکوئوں کا سرپرست قرار دے دیااور کہا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں سینکڑوںکشمیریوں کو شہید کرنے میں ملوث ہیں۔ بہرحال مقبوضہ کشمیر میں فرضی جھڑپوں اور شہادتوں کے واقعات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن 2000ء میں جب کشمیرآئے تو اس وقت بھی جنوبی کشمیر کے گائوں چھٹی سنگھ پورہ میں تیس سکھوں کا قتل عام کر کے پاکستان پر بے بنیاد الزام تراشیاںکی گئیں اور صرف پانچ دن بعد پانچ عسکریت پسندوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیکرپتھری بل فرضی جھڑپ میں شہید کر دیا گیا لیکن بعد میں جب کشمیریوں نے زبردست احتجاج کیا کہ یہ سب تو مقامی کشمیری ہیں تو بھارتی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی نے بھی تحقیقات شروع کر دیں اور یہ بات تسلیم کی کہ واقعتا ان سبھی نوجوانوں کا تعلق کشمیر سے تھا اور وہ چھٹی سنگھ پورہ واقعہ میں کسی طور ملوث نہیں تھے۔
ایسے ہی کشمیریوں کے قتل عام کے کئی خونیں واقعات ہوئے ہیں جن میں سانحہ گائو کدل، سانحہ حول، کنن پوشپورہ، لالچوک سانحہ، جلیل اندرابی کا قتل، سنگرام پورہ، وندہامہ، کشتواڑ اوردیگر علاقوںمیں ہونے والے قتل عام اور فرضی جھڑپیں شامل ہیں۔ان تمام واقعات کے بعد کشمیریوں کی جانب سے شدید احتجاج کیاجاتا رہا۔ تحقیقاتی کمیٹیاں بنائی جاتی رہیں اور سبی بی آئی جیسے ادارے تحقیقات کے وعدے کرتے رہے مگریہ سب چیزیں غیر موثر ثابت ہوئیں اور کسی ایک بھارتی فوجی کو بھی آج تک سزا نہیں سنائی گئی۔
مژھل فرضی جھڑپ جس میں ملوث دو بھارتی افسروں سمیت چھ اہلکاروں کو سزا سنائے جانے کا ڈھنڈورا پیٹاجارہا ہے۔ اس واقعہ کے بعد بھی پورے کشمیر میں بھارتی فورسز کے خلاف جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک چلائی گئی۔ 128 کشمیری شہید کر دیے گئے مگر کسی قسم کی منصفانہ تحقیقات نہیں کی گئیں اب جب مقبوضہ کشمیر میں الیکشن قریب ہیں اور بی جے پی کی مودی سرکار کشمیر میں بھی سیٹیں حاصل کرنے کیلئے سارے حربے استعمال کر رہی ہے تو دو افسروں سمیت چھ فوجیوں کو سزا سنانے کا ڈرامہ رچایا گیا ہے جس کی سرے سے کوئی حقیقت نہیں ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد شہادتیں پیش کرنے والی کشمیری قوم کا بچہ بچہ اب ہندو بنئے کی ذہنیت سے بخوبی آگاہ ہے ۔
وہ اب مودی سرکاراور نام نہاد فوجی عدالتوں کی ان سفارشات پیش کرنے جیسے کسی جھانسہ میں نہیں آئیں گے۔بھارتی فوجیوں کو نہ ماضی میں کبھی سزا ملی ہے اور نہ آئندہ کسی ایسے امر کی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف بھارتی فوجیوں کو سزا سنانے کا پروپیگنڈا کیاجارہا ہے اور دوسری جانب اس فیصلہ کے اگلے دن ہی ریاستی دہشت گردی کا شکار دو کشمیریوں کی لاشیں حوالے کرنے والے نہتے اور پرامن کشمیریوں پر اندھا دھند گولیاں برسائی جارہی ہیں۔حریت کانفرنس کی جانب سے بھارتی فوجیوں کو سزا کی سفارشات کو الیکشن ڈرامہ قرار دینا اور بیس نومبر کو مودی کے دورہ کشمیر پر ہڑتال کی کال و احتجاجی مظاہروں کافیصلہ درست اور بروقت ہے۔
Pakistan
کشمیری قوم ابھی سیلاب کی تباہ کاریوں کے صدمہ سے نہیں نکل سکی کہ ان پر نام نہاد الیکشن مسلط کر دیا گیا ہے۔اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ انہیں کشمیریوں سے کس قدر ہمدردی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان بھارت سرکار کی ان سازشوں کو عالمی سطح پر بے نقاب کرے اور مظلوم کشمیریوں کی کھل کر مددوحمایت کی جائے تاکہ نہیں غاصب بھارت کے پنجہ استبداد سے نجات مل سکے۔