مسئلہ کشمیر پر حمایت کر کے چین نے ثابت کر دیا وہ پاکستان کا ہر آڑے وقت کا ساتھی ہے۔ شاہ محمود قریشی

 Shah Mahmood Qureshi

Shah Mahmood Qureshi

اسلام آباد (جیوڈیسک) چین نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر سلامتی کونسل میں پاکستان ساتھ دینے کا اعلان کرکے ثابت کردیا کہ وہ پاکستان کا ہر آڑے وقت کا ساتھی ہے۔

دورہ چین سے واپسی کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر گہری تشویش ہے، وادی سے شہادتوں کی اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کمیونیکیشن بلیک آؤٹ کی وجہ سے تفصیلات سامنے نہیں آرہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو جیسی صورتحال کے سبب غذاؤں اور ادویات کی کمی ہو گئی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر چینی وزیر خارجہ اور دیگر حکام سے تفصیلی بات ہوئی، چین نے جو ردعمل دیا وہ ہماری توقعات کے عین مطابق ہے، چین نے پھر ثابت کیا کہ وہ پاکستان کا ہر آڑے وقت کا ساتھی ہے، ہمارے اس قومی مسئلے پر چین نے مکمل حمایت کا اعلان کیا۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں اٹھانے پر چین نے مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے، پاکستان اور چینی وزارتِ خارجہ کے درمیان ڈی جی کی سطح کے فوکل پرسن مقرر کیے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چین نے واضح پوزیشن لی ہے کہ وہ جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ سمجھتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جمعے کی نماز کیلئے قابض انتظامیہ نے کرفیو اٹھایا تو فوری مظاہرے شروع ہوئے، بھارتی فوج نے ان پر گولیاں چلائی ہیں، آج کرفیو میں نرمی نہیں تھی لیکن کشمیریوں نے کرفیو توڑ کر احتجاج کیا ہے، لداخ سے بھی بھارت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی خبریں آرہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر سے غذائی اشیاء اور دواؤں کی قلت کی خبریں بھی سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں، مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے، پاکستان اس پر بات کا پورا حق رکھتا ہے، جو کچھ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کررہا ہے وہ نسل کشی ہے۔

خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کشیدہ صورت حال پر چینی حکومت کو پاکستان کے خدشات اور تحفظات سے آگاہ کرنے کے لیے وزیر خارجہ شاہ محمود نے گزشتہ دنوں ہنگامی دورہ چین کیا تھا۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی ہنگامی دورے میں چینی ہم منصب سے ملاقات کیلئے اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس پہنچے تو ان کے وفد کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور پاک چین دوستی زندہ باد کے نعرے لگائے گئے۔

بھارت نے 5 اگست کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔

بھارت نے اب یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالیے ہیں۔

بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔

آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔

بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔

پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کی بھرپور مخالفت کی اور اقوام متحدہ، سلامتی کونسل سمیت ہر فورم پر یہ معاملہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان نے فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اور قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھارتی اقدم کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم اور سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔

وزیر ریلوے شیخ رشید نے سمجھوتہ ایکسپریس ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا اعلان کردیا۔

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چوینگ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پرکشیدگی اور آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے متعلق سوالات پر تحریری جواب میں کہا کہ چین کو کشمیر کی موجودہ صورتحال پر ‘شدید تشویش’ ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ چین نے سرحدی علاقے میں بھارتی مداخلت کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اور اس بارے میں ہمارا مؤقف واضح اور مستقل ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت نے اپنا قانون یکطرفہ تبدیل کرکے ہماری خودمختاری کو نقصان پہنچایا، ایسے اقدامات ناقابل قبول اور کبھی قابل عمل نہیں ہوسکتے۔

ترجمان کے مطابق بھارت سرحدی معاملات پر بیان اور عمل میں ہوشمندی کا مظاہرہ کرے اور بھارت چین سے کیے گئے معاہدوں پر قائم رہے، بھارت ایسے کسی بھی عمل سے باز رہےجو سرحدی امور کو مزید مشکل بنادے۔

بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کردیے تھے کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔

اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی تعداد اس وقت 9 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وادی بھر میں کرفیو نافذ ہے، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سروسز بند ہیں، کئی بڑے اخبارات بھی شائع نہیں ہورہے۔

بھارتی انتظامیہ نے پورے کشمیر کو چھاؤنی میں تبدیل کررکھا ہے، 7 اگست کو کشمیری شہریوں نے بھارتی اقدامات کیخلاف احتجاج کیا لیکن قابض بھارتی فوجیوں نے نہتے کشمیریوں پر براہ راست فائرنگ، پیلٹ گنز اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جس کے نتیجے میں 6 کشمیری شہید اور 100 کے قریب زخمی ہوئے۔

اطلاعات کے مطابق بھارتی فوج نے 8 اگست کو کشمیر میں احتجاج کرنے والے تقریباً 500 کشمیریوں کو بھی حراست میں لے لیا ہے جبکہ حریت قیادت سمیت بھارت کے حامی رہنما محموبہ مفتی اور دیگر نظر بند ہیں۔