کمشیر (جیوڈیسک) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ دو ہفتوں سے ہر طرح کے مواصلاتی رابطے منقطع ہیں لیکن حکومتی بیان کے مطابق آج ایک سو ٹیلی فون ایکسچینجز میں سے سترہ جزوی طور پر بحال کر دی گئی ہیں۔
اگست کے اوائل میں نئی دہلی حکومت نے مسلم اکثریتی علاقے کشمیر کو حاصل نیم خودمختار حیثیت ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے وہاں لینڈ لائن، موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس ختم کر دی تھی۔ نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کو احتجاجی اور پرتشدد مظاہروں کا خدشہ تھا اور اسی باعث جموں و کشمیر میں اضافی فوجی تعینات کرتے ہوئے لوگوں کی نقل و حرکت کو انتہائی محدود بنا دیا گیا تھا۔
جموں و کشمیر کے پولیس چیف دلباغ سنگھ کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کے پانچ پرامن علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ سروس بحال کر دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”ہم نے سترہ ٹیلی فون ایکسچینجز کو بحال کر دیا ہے۔ کچھ حصوں میں جزوی طور پر لینڈ لائن فون بھی کھول دیے گئے ہیں۔‘‘
دریں اثناء کمشیر کے مرکزی شہرسری نگر کے دو درجن افراد نے ہفتے کی صبح اس حکومتی دعوے کو مسترد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے لینڈ لائن فون ابھی تک کام نہیں کر رہے۔ قبل ازیں ریاستی چیف سیکریٹری بی وی آر سبراہمینیم نے جمعے کے روز کہا تھا کہ ویک اینڈ پر مرحلہ وار فون سروس بحال کر دی جائے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ علاقے کے لحاظ سے آئندہ پیر سے حکومتی دفاتر اور اسکول بھی کھول دیے جائیں گے۔
دوسری جانب علاقے کے لاک ڈاؤن کے باوجود کشمیری احتجاج کر رہے ہیں۔ جمعے کے روز سری نگر میں سینکڑوں مقامی شہریوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مقامی رپورٹروں کے مطابق پولیس نے ان مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ پیلٹ گنوں کا بھی استعمال کیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق نئی دہلی حکومت کی جانب سے کشمیر میں نقل و حرکت کو انتہائی محدود بنا دیا گیا ہے اور وہاں کرفیو کی سی صورتحال ہے۔ کشمیریوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور کرفیو میں نرمی کے ساتھ ہی وہاں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہونے کا امکان ہے۔ گزشہ روز سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں بھی کشمیر کی صورتحال پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔