5 فروری کو امسال بھی حسب سابق یوم یکجہتی کشمیر منایا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے کشمیریوں کا ساتھ دینے کے وعدے اور اعلانات ہوں گے جبکہ ملک کی محب وطن جماعتیں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے جلسے، جلوس، ریلیاں اور دیگر پروگرام منعقد کریں گی۔ فروری کے اس دن کو مناتے 22 سال ہو گئے چکے ہیں۔ اس روایت کا آغاز 1992ء میں ہوا تھا اور اس کے بعد اس دن قومی تعطیل کا بھی آغاز ہوا لیکن افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ہمارا کشمیر کے ساتھ تعلق اس 22 سال کے عرصہ میں بھی سال بعد ایک دن کے محض الفاظ کے اظہار یکجہتی سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اظہار یکجہتی کرتے وقت ہمیں یہ بھی تو ضرور غور کرنا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کشمیر کی آزادی کا خواب پورا ہونے کے بجائے ہر روز طویل ہی ہو رہا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ساری دنیا بھارت کی ساتھی اور اس کی ہمنوا ہے۔ اس دنیا نے تو انڈونیشیا کو توڑ کر مشرقی تیمور اور سوڈان کو توڑ کر جنوبی سوڈان بنا ڈالے کیونکہ یہاں معاملہ مسلمانوں کے ملکوں کو توڑنے اور عیسائی ریاستیں بنانے کا تھا۔ کشمیر کا معاملہ اس لئے گھمبیر تر ہے کہ یہاں آزادی کیلئے مسلمان تڑپ رہے ہیں، جنہیں آزادی دینے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں۔ یہ ضرور اپنی جگہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے لیکن اس کے ساتھ ہمیں بھی تو سوچنا چاہئے کہ آخر ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہو رہی ہیں کہ جن کے باعث کشمیر پر بھارت کا قبضہ کمزور پڑنے کے بجائے۔
Mohammad Ali Jinnah
مزید مضبوط ہو رہا ہے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کشمیر کو شہ رگ قرار دے گئے لیکن ان کے بعد آنے والی کسی حکومت نے کشمیر کے ساتھ اخلاص کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ 1948ء میں خود بھاگ کر اقوام متحدہ پہنچنے والا بھارت آج تک اپنے تمام وعدوں سے مکر کر ہمیں اور ساری دنیا کو بے وقوف بنائے رکھے۔ افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ہمارے ملک پر حکومت کرنے والی تمام پارٹیاں، شخصیات اور ادارے ایک طرف تو کشمیر کی آزادی کی تحریک سے تو کھل کر برأت کا اعلان نہیں کرتے کیونکہ کشمیر ہمارے ملک کی زندگی اور بقاء کے حوالے سے وہ لائف لائن ہے کہ جس کے بغیر ہمارا ہر دن مشکل ہے۔ لیکن اسی کشمیر کی آزادی کے لئے آج تک کھل کر تحریک بھی نہیں چلائی گئی کہ جو ثمر آور ہو سکتی۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ آج پاکستان میں پانی کی شدید کمی ہو رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر جو ہر لحاظ سے پاکستان کا حصہ بنتا ہے، پر قبضہ جما کر ہمیں وہیں سے بنجر بنانا تیز تر کر رکھا ہے۔ بھارت نے 1960ء کے بدنام زمانہ سندھ طاس معاہدے کو لے کر پہلے اپنے حصے میں آنے والے تین دریا ستلج، بیاس اور راوی کو مکمل خشک کیا تو اب وہ کئی سالوں سے پاکستان کے حصے میں آنے والے دریا خشک کر رہا ہے۔ کمال دیکھئے کہ بھارت ہمارے ملک میں ہمارے ڈیموں کی تعمیر روکنے کیلئے سالانہ اربوں روپیہ خرچ کر رہا ہے اور یہ پیسہ ان شخصیات کو دیا جاتا ہے جو پاکستان میں نئے ڈیم بنانے کی مخالف ہیں۔ ان قوتوں کو ملک سے کچھ غرض نہیں۔ وہ تو ذاتی مفاد کے پجاری لوگ ہیں لیکن ہم اس موقع پر ان قوتوں سے سوال کرتے ہیں۔
کہ جو اس بات کے دعویدار ہیں کہ ان کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے اور وہ اسے چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے کہ وہ کشمیر کی آزادی کیلئے کیا کچھ کر رہے ہیں؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بھارت نے تو عالمی سطح پر اپنے سراسر جھوٹے موقف کو سچ ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے اور ساری دنیا کو جہاں اپنا ہمنوا بنایا ہے تو وہیں اسے ہمارا مخالف بھی کر دیا ہے لیکن ہمارے لوگ سچا ہو کر بھی سچ کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ پاکستان کو امریکہ افغانستان کی جنگ میں صف اول کا اتحادی بنا کر سامنے لایا تھا۔ فرنٹ لائن اتحادی بننے کے نتیجے میں ہمیں 100 ارب ڈالر سے زائد کی معاشی تباہی کاسامنا ہوا تو 50ہزار پاکستانی شہری، فورسز اہلکار و افسران بھی جانوں سے گزر گئے لیکن ہم امریکہ سے یہ تک نہ منوا سکے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عالمی سطح پر ہمارے حق میں کوئی کردار ادا کرتا۔ اگر ہم نے عالمی طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ اپنے مسائل حل کروانے کی سعی کی ہوتی تو آج صورتحال یہ نہ ہوتی کہ ہمارا تو سارا معاملہ ہی الٹا ہے۔ ایک طرف تو فرنٹ لائن اتحادی بن کر امریکہ کی وجہ سے اپنے ملک کو ہم نے خود تباہ کیا اور وہ ہمارے ہی خلاف بھارت میں جا کر اڈے بنا رہا ہے اور ہمیں گھیرنے میں مصروف ہے۔
امریکہ اس کے ساتھی ممالک کو ہم نے اپنا اتحادی باور کیا لیکن انہوں نے ہمیں کبھی اتحادی نہیں مانا اور وہ بھارت کے ساتھ جا کر پینگیں ڈالتے رہے۔ اس وقت امریکہ پاکستان کو چار اطراف سے زبردست طریقے سے گھیرنے کیلئے مصروف عمل ہے اور افغانستان کے بعد اب کشمیر سمیت بھارت کے کئی علاقوں پر پاکستانی سرحد سے قریب تر اڈے بنائے جائیں گے۔ یہ سب کچھ بھارت اپنی مجبوری اور مرضی دونوں کے ساتھ کر رہا ہے کیونکہ اس پر خوف سوار ہے کہ افغانستان میں امریکہ سمیت اس کے تمام اتحادیوں کو شکست دینے والے اب لامحالہ کشمیر کا رخ کریں گے جس کا وہ اعلان بھی کر چکے ہیں تو اسی کے تدارک و علاج کیلئے بھارت نے امریکہ کو اپنے ہاں باقاعدہ اڈے دینے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ امریکہ نے اس حوالے سے پاکستان سے اڈے لینے کی کوشش کی تھی لیکن جب اسے یہاں سے انکار ہوا تو وہ سیدھا بھارت جا پہنچا۔ ان سنگین حالات میں ضروری ہے کہ پاکستان اپنی امریکہ کے ساتھ حالیہ پالیسی پر نظرثانی کرے۔ امریکہ نے ہمیں استعمال کیا لیکن ہمارا کوئی کام نہیں کیا تو ہمیں بھی اب اسے چھوڑ کر خود سے مخلص ہونا چاہئے۔ ہماری زمین کی بقا اور تحفظ کے سارے راستے کشمیر سے نکلتے ہیں، کشمیر سے ہی تو ہمارے زرعی ملک میں سارا پانی آتا ہے، اس لئے ہم تو یہی سمجھتے ہیں۔
Kashmir
کہ اب سب کچھ چھوڑ کر پورے اخلاص کے ساتھ دنیا بھر میں حقیقی انداز میں کشمیر کی آزادی کیلئے متحرک و مضبوط آواز بلند کرنی چاہئے۔ یہ بات تو خوش آئند ہے کہ موجودہ وزیراعظم نواز شریف کشمیر کے حوالے سے بہت فکر مند ہیں۔ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی کشمیر کا بڑے احسن انداز میں مقدمہ لڑنا شروع کیا لیکن اب اس معاملے کو تیز تر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اب بات یکجہتی سے آگے جانی چاہئے۔ گزشتہ ہفتے ایک طرف ہمارے وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ کشمیر کے بغیر امن کا خواب دیکھنا بے کار اور فضول ہے تو ساتھ ہی کہا کہ بھارت کے ساتھ دوستانہ اور قریبی تعلقات چاہتے ہیں۔ جناب وزیراعظم کو تاریخ پڑھ لینی چاہئے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات خوشگوار اور دوستانہ رکھنا دیوانے کا خواب اور ناممکن عمل ہے۔ آپ چاہے جو مرضی کر لیں، بھارت وہ سانپ ہے کہ جو صرف کاٹے گا۔ اس کی 67 سالہ تاریخ گواہ ہے۔ اب ہمیں ماضی کو بھلا کر نہیں بلکہ اس سے سبق سیکھ کر اس سے آگے بڑھنا چاہئے۔ محض کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے سالانہ بیانات اور نعروں سے بات نہیں بنے گی۔ جس طرح کشمیری قربانیاں پیش کر کے تاریخ عالم بدل چکے ہیں ہمیں انداز میں ان کا ساتھ دینا چاہئے۔ 67 سالہ تاریخ میں ان پر بھارت نے کون سا ظلم نہیں ڈھایا لیکن آج بھی چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔ ایسی بہادر، جرأت مند، دلیر اور استقامت دکھانے والی قوم کہیں دور دور تک نظر نہیں آتی۔
تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ حالات چاہے کتنے ہی ناموافق نظر آئیں ایک وقت آتا ہے کہ قربانیاں دینے والے اور استقامت دکھانے والے بالآخر کامیاب ہو جاتے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ اور اس کے 45 اتحادیوں کی شکست تو ہمارے سامنے ہے، جس کے بعد ہمیں کوئی شک یا تردد نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں یقین ہے کہ کشمیری قوم نے جس جذبہ حریت کا 67 سال میں مظاہرہ کیا ہے کہ اس سے ان کی آزادی کی منزل ہر صورت نزدیک تر اور یقینی ہے۔ کہیں ہم محض یکجہتی کے نعرے لگاتے ہوئے عین اس وقت جب وقت قیام ہو تو سجدے میں گر چکے ہوں۔ اپنی کشمیر پالیسی کو درست کر کے عالمی سطح پر چلا کر کشمیری قوم کا اعتماد بحال کریں تاکہ آنے والے کل میں کسی بڑی پریشانی کا سامنا نہ ہو اور فیصلہ کے وقت جو کہ بالآخر آ کر رہنا ہے، کشمیری قوم ہمارے ہی ساتھ کھڑی ہو۔