کشمیر ظالموں کے شکنجے میں پھنساہ ہوا ہے ۔اس میںصرف بھارت ہی نہیں اسرائیل اور امریکہ بھی شامل ہے۔ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں ۔بھارت جس پر مسلمانوں نے ہزار سال حکومت کی تھی اب وہ پاکستان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مسلمانوں سے بدلے لے رہاہے۔ کشمیر کی آزادی تو ایک طرف وہ تو پاکستان توڑنے کی تدبیریں کرتا رہتا ہے تاکہ اکھنڈ بھارت بنا سکے۔ پہلے اس نے بنگلہ دیش بنوایا اب بلوچستان میں سازشیں کر رہا ہے۔ دوسری طرف اس کو مسلمانوں کے سمندر میں ملنے سے روکتا رہتا ہے ۔پاکستان بنتے وقت ہندوئوں کے باپوگاندھی نے تاریخی طور پر کہا تھا مجھے پاکستان بننے سے زیادہ فکر اس کی ہے کہ پاکستان دوسرے مسلمان مملکتوں سے مل کر خلافت کی دوبارہ بنیاد نہ رکھ دے۔ اسی لیے وہ افغانستان میں اربوں روپے کی پہلے اور اب بھی سرمایا کاری کر رہا ہے۔
بھارت افغانستان کی قوم پرست حکومت کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔ اس کو پاکستان کی مخالفت کرنے وا لی سیاسی پارٹیاں بھی مدد فراہم کرنے کی کو شش کرتی رہتی ہیں۔ تاکہ تاریخی طور پر ثابت کر سکیں کہ ان کے آبائواجداد کا نکتہ نظر قائد اعظم کے پاکستان بنانے کی نکتہ نظر کے مقابلے میں درست تھا ۔ کچھ عرصہ قبل ان کی پارٹی کے ایک پارٹی کے مرکزی لیڈر نے فرمایا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کنفڈریشن بنالے۔ان کے لیڈر نے اپنی قبر بھی پاکستان میں بنانا بہتر نہیں سمجھی اور جلال آباد میں مدفن ہیں۔ مرنے کے بعد بھی اپنی پارٹی کے لیے نشان منزل چھوڑ گئے۔پاکستان بنانے والوں کی اولاد میں سے بھی ایک قوملسانیت پرست غدار پاکستان لیڈر الطاف حسین نے بھارت کے اندر جا کر فرمایا کہ تقسیم ایک تاریخی غلطی تھی۔ایک اور قوم پرست لیڈر غلام مصطٰفے شاہ( جی ایم سید) نے تو اندرا گاندھی کو پاکستان پر حملے کی بھی دعوت دی تھی۔ قوم پرست شیخ مجیب نے بھارت کی فوج کی مدد سے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔
پاکستان کے کچھ میڈیا مالکان دولت کی ہوس میں امریکا کے پاکستان بھارت پرانے ڈاکٹرائن پر عمل کرتے ہوئے امن کی آشا پر عمل پیرا ہ رہے۔ جس کی وجہ سے کشمیر کو ایک کونے میں رکھ دیا گیا ہے۔ گذشتہ حکومت ازلی دشمن بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دے کر اس سے تجارت،ثقافت اور دوسرے معاملات میں پیش رفت کرتی رہی جبکہ اس میں فائدہ بھارت کا ہی ہے اورپاکستان کا کم ۔اسی بات کو ٹی وی اینکر اور کالم نگار نجم سیٹھی نے اپنے ایک کالم میں تشویش اظہار کیا کہ پاکستان تو سب کچھ کر رہا ہے جبکہ بھارت کچھ بھی نہیں کر رہا ہے۔ اسی لیے ایک وقت کشمیر کمیٹی کے اجلاس میںعلی گیلانی نے شرکت سے انکار کر دیاتھا۔ اس میں میر واعظ عبدالغنی بھٹ اور دیگر شرکت نے کی۔ پارلیمنٹ کی خصوصی کشمیر کمیٹی کا اجلاس ١٨ دسمبر بروز منگل ٢٠١٢ء کو پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا تھا۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے برزگ سیاسی رہنما علی گیلانی نے نئی دہلی میں جاری بیان میں کہاتھا کہ جب تک بھارت جموں کشمیر کو متنازع علاقہ تسلیم نہیں کرتاپاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتی۔
کل جماعتی حریت کانفرنس(گ)کے چیر مین علی گیلانی صاحب نے کہا بھارت نے ١٩٩٠ء میں وزیر اعظم بنانے کی پیشکش کی تھی جو مسترد کر دی تھی ۔ بھارت کشمیریوں سے اپنے وعدے پورے کرے افضل گرو اور دوسرے کشمیریوں کی کی پھانسیاں نا قابلِ برداشت ہیں۔ پاکستانی عوام تو یہ سمجھے تھے کہ پاکستان بناتے وقت مختلف لوگوںکے نکتہ نظر میںاختلاف تھا۔ جب پاکستان بن گیا تو اب یہ اختلاف ختم ہو گیا ہے۔ مگر کیا کیا جائے ان حضرات کا کہ ان کے دلوں سے ابھی تک صفائی نہیں ہوئی۔ ان کی ہر حرکت ان کے پرانے خیالات کی ہی طرف جاتی ہے۔
صاحبو ! اس میں کوتاہی پاکستان کی صحیح سمت متعین کرنے والوںمقتدر حلقوں کی ہے۔ پاکستان جب اسلام کے نام سے بنا ہے تو قومیتوں کو کیوں پنپنے دیا گیا۔ جب سب پاکستانی مسلمان ہیں جن کا قرآن ایک رسولۖ ایک، تو پھر پاکستان کے مسلمان ایک کیوں نہیں ایک ۔بانی پاکستان قائد اعظم نے تو پاکستان بنایا ہی صحیح سمت میں تھا کہ ہندو مسلمان دو قومیں ہیں اسی کو دو قومی نظریہ کہتے ہیں مسلمان ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں ہندو لاتعداد مورتیوںبتوں کو پوجتے ہے ان کے تمام طریقے ایک دوسرے سے الگ ہیں مسلمان گائے کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھاتے ہیں ہندو اس کو مقدس گائو ماتا کہتے ہیں ایک قوم کے ہیرو دوسری قوم کے غدار کہلاتے ہیں وغیرہ۔ اسی لیے قائد اعظم نے ایک ہی عوامی ایک ہی نعرہ دیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہٰ الا ّ اللہ” مگر ان کی زندگی کے بعد حکمرانوں نے اس نعرہ کو بھلا دیا۔
پاکستان بننے سے پہلے قائد اعظم کا قول”وہ چیز جس نے مسلمانوں کو متحد رکھا ہے اور جو اس قوم کی اساس ہے وہ اسلام ہے ۔عظیم صحیفہ قرآن ہمارے عقیدے کی بنیاد ہے۔ مجھے امید ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھیںگے ہم میںزیادہ سے زیادہ یکجہتی ہوتی جائے گی کیونکہ ہم ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب، ایک قبلہ اور ایک ملت پر یقین رکھتے ہیں”(مسلم لیگ اجلاس کراچی٢٦ دسمبر١٩٤٣ء فرموداتِ قائد قائد اکیڈمی ٢٠٠٦ء ) پاکستان بننے کے بعد١٤ فروری ١٩٤٨ء کو سبّی کے سالانہ دربار میں خطاب کرتے ہوئے کہا”میرا عقیدہ ہے کہ ہماری نجات اخلاق کے ان سنہری ضوابط میں مضمرہے جو ہمارے عظیم قانون دہندہ رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے وضع کئے ہیں۔ آئیے ہم اپنی جمہوریت کی بنیاد سچے اسلامی نظریات اور اصولوں پر رکھیں ۔ہمارے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ ملکی معاملات میں ہمارے فیصلے بحث و نظر اور باہمی مشوروں کی روشنی میں ہونے چائیں”(ملت کا پاسبان قائد اعظم اکیڈمی) اس ملک کو صرف اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل کر کے ہی یکجا رکھا جاسکتا ہے جو قائد کا وژن تھااگر ہم نے اس ملک کو اسلام کا گہوارہ بنایا ہوتا تو نہ بنگلہ دیش بنتا نہ بلوچستان میں مداخلت ہوتی نہ کشمیر زخموں سے چور چور ہوتا نہ ہماری موجودہ حالت ہوتی آئیے پھر سے بھولا ہوا سبق یا کر کے اس پاکستان کو اسلام کا گہوارہ بنائیں اور دکھوں سے نجات پائیں۔آئے روز کشمیر میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں لاکھوںکشمیری شہید ہو چکے ہیں ہزاروں لا پتہ ہیں ہزارو ں عزت ماآب خواتین کی ہند و فوجیوں نے اجتماعی آبرو ریزی کی ہے ہزاروں نوجوانوں کواپاہج کر دیا گیا ہے۔
ہزاروں کشمیریوں کو بیلٹ گنوں چلا کر اندھا کر دیا ہے۔ عورتوں کی چوٹیاں کاٹی جا رہی ہیں۔ کھربوں کا مالی نقصان ہو چکا ہے کشمیر میں سار ے دریائے کے پانیوں کا رخ موڑا جا چکا ہے۔ جس سے پاکستان بنجر ہو جائے گا یا بارش کے دنوں میں بھارت پانی چھوڑ کر اس کو سیلاب سے تباہ کر دے گاظلم کی رات ہے جو ختم نہیں ہو رہی ہے۔کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے مختلف اداروں سے ٥ سال تک وابستہ رہنے والے سماجی کارکن ”کارتِک مرد کوٹلا”نے بتلایا کہ کشمیر میں جو کچھ بھی ہوا وہ محض حادثہ نہیں بلکہ ایک منظم پالیسی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ ٥٠٠ بھارتی فوجی و اہلکار جنگی جرائم کے مرتکب ہیں۔اس میں ٢میجر جنرل،٣ بریگیڈئر،٩ کرنل،٣ لیفٹینٹ کرنل،٧٨ میجر اور ٢٥ کیپٹن شامل ہیں ۔فرضی جھڑپوں،حراست کے دوران اموات اورجنسی زیادتیوں کے کئی معاملات میں یہ لوگ ملوث ہیں۔
یہ رپورٹ ان معلومات پر مشتمل ہے جو بھارت میں انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ”کولیشن آف سول سوسائٹیز اور کشمیر کی سرکردہ تنظیم اے پی ڈی پی(لا پتہ افراد کے والدین کی تنظیم) اور نجی طور پر بنائے گئے انٹر نیشنل ٹریبونل نے حکومت سے رائٹ ٹو انفارمیشن کے قانون کے تحت طلب کی ہیں۔یہ تنظیمیں طویل عرصے سے کشمیر میں گم شدہ نوجوانوں اور وہاں پولیس کے ہاتھوں مبینہ مقابلوں میں مارے جانے والے معصوم کشمیریوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہی ہے ۔سرکاری معلومات، پولیس ریکارڈ، متاثرین اور مارے گئے افراد کے لواحقین سے برا ہ راست گفتگو سے بھی استفادہ کیا گیا ہے ۔اس رپورٹ میں پہلی مرتبہ برائے راست ملوث افراد کی طرف نشاندہی کی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں شروع دن سے کشمیریوں پر بھارتی فوج کے مظالم اور زیادتیوں کو بیان کرنے پر بھارتی حکومت کی تنقید کا نشانہ بنتے رہی ہیں۔
قارئین ! کشمیر زخموں سے چور چور، پاکستان کے ساتھ شامل ہونا تھا جو ابھی تک نہ ہو سکا۔کشمیر ابھی تک پاکستان کا نا مکمل ایجنڈہ ہے۔ کشمیری ہر سال سری نگر میں پاکستان کا ہلالی سبز جھنڈا لہرا کر یوم پاکستان مناتے ہیں۔ بھارت کے ترنگے کو جلا کر یوم سیاہ مناتے ہیں۔ کشمیریوں کا بچہ بچہ کہتا ہے ہم کیا چاہتے ہیں آزادی۔کشمیر کے مسئلہ کو ایٹمی میزائل صلاحیت کے حامل مضبوط مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلا می جہاد کے اصو لوں پر عمل پیرا ہو کر ہی آزاد کرا سکتاہے۔ کشمیر جلد آزاد ہو کر پاکستان سے آ ملے گا۔ ان شاء اللہ۔