کشمیر میں دو نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد مظاہرے

kashmir Rally

kashmir Rally

کشمیر (جیوڈیسک) بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں فوجی اہلکاروں کی فائرنگ سے دو نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گئے ہیں۔ سرینگر اور بڈگام کے بیشتر علاقوں میں کرفیو اور سخت سکیورٹی پابندیوں کے باوجود ہزاروں لوگوں نے منگل کی صبح 21 سالہ معراج الدین اور 13 سالہ برہان فیصل کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔

بڈگام ضلع کے چھیترگام علاقے میں واقع ایک فوجی چیک پوائنٹ پر تعینات اہلکاروں نے پیر کی شام ایک نجی کار کو رُکنے کا اشارہ کیا لیکن وہ تھوڑے فاصلے پر رکی جس پر فوج نے کار پر فائرنگ کی۔ کار میں سوار چار نوجوانوں میں دو موت ہوگئی جبکہ باقی دو نوجوان شدید طور پر زخمی ہو گئے اور ان کی حالت تشویشناک بتائي جا رہی ہے۔

معراج اور فیصل کی لاشیں جب ان کے آبائی علاقے نوگام پہنچائی گئیں تو وہاں کہرام مچ گیا اور دیر رات تک مقامی نوجوان، خواتین اور بچے سڑکوں پر مظاہرے کرتے رہے۔ منگل کی صبح پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی بھاری تعداد کو نوگام اور گردونواح کے علاقوں میں تعینات کیا گیا اور جگہ جگہ ناکہ بندی کی گئی۔ لیکن سینکڑوں نوجوان محاصرہ توڑ کر شاہراہ کی طرف نکل پڑے اور پولیس پر پتھراو کیا۔ پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسوگیس کا استعمال کیا اور ہوا میں فائرنگ کی۔ ان ہلاکتوں کی وجہ سے پوری وادی میں کشیدگی کی لہر پھیل گئی ہے۔

جنازے میں شامل خواتین نے نوجوانوں کی لاشوں پر پھول اور مٹھائیاں برسائیں اور شادی بیاہ کے موقعوں کے لیے خاص روایتی گانے مرثیہ کے انداز میں گائے۔ برہان فیصل کی بہن نے بلکتے لہجے میں کہا ساتویں جماعت کے بچے کو کہا کہ شدت پسند ہے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سرعام قتل کیا جاتا ہے۔ ہم پوری دنیا سے التجا کرتے ہیں، ہماری آواز سنو۔ ہمارے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کی15ویں کور کے ترجمان این این جوشی نے بتایا کہ فوج کی اعلیٰ قیادت نے عام شہریوں کی ہلاکت کے لیے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ فوج کو پہلے بڈگام ضلع کے چھیترگام علاقے سے مسلح شدت پسندوں کی نقل و حرکت کی خفیہ اطلاع ملی تھی اس لیے فوج پہلے ہی کسی بھی مشکوک سرگرمی کے حوالے سے حساس اور چوکس تھی۔

اس گاڑی کو دو چیک پوائنٹس پر رکنے کے لیے کہا گیا تھا، لیکن یہ لوگ نہیں رکے۔ پھر بھی ہم اس سب کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کی ہلاکت کا وقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب کشمیر میں 25 نومبر سے مرحلہ وار انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ ان ہلاکتوں سے یہاں تعینات بھارتی فوج کو حاصل وہ لامحدود اختیارات پھر ایک بار زیربحث آگئے ہیں جن کے تحت فوج محض شک کی بنیاد پر کسی بھی شخص کو ہلاک یا گرفتار کر سکتی ہے یا کسی بھی مکان کو بارود سے اُڑا سکتی ہے۔ اس قانون کے خاتمے کے لیے علیحدگی پسند گروپ عرصے سے مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ بھارت نواز سیاسی گروپ نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹیاں بھی اس قانون کے نفاذ کو غیر ضروری بتاتی رہی ہیں لیکن فوجی حکام اس قانون کا دفاع کرتے ہیں۔ دریں اثنا مقامی پولیس نے نوگام اور گردونواح کے سبھی علاقوں میں اضافی فورسز کو تعینات کیا ہے۔

پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا ’شہر میں یوم عاشورہ کی وجہ سے پہلے ہی کشیدگی ہے۔ ہم کوئی رسک نہیں لیں گے۔ منگل کے روز ہم لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کریں گے۔ واضح رہے گذشتہ 25 برس سے یہاں محرم کے دوران عزاداری کے جلوسوں پر پابندی ہے اور ہر سال سات سے دس محرم تک حکومت شہر میں سکیورٹی پابندیاں نافذ کرتی رہی ہے۔ نوگام کے ایک شہری رفیق شیخ نے بتایا یہ تو کربلا کے مانند ہے۔ اب دیکھیے، ایک تو بے قصور نوجوانوں کو قتل کر دیا اور اب ان کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہونے دیں گے۔