ارض کشمیر جس سے حضرت اقبال نے وادی لولاب کہا تھا۔میرے قائد وطن محمد علی جناح نے جس سے شہ رگ قرار دیا تھا۔آج 70 سال زائد سال گزر گئے ظلم و بربریت کا شکار ہے۔یہ کہانی 1931ء میں سری نگر سے شروع ہوئی تھی۔جس میں 17 کشمیری شہید ہوئے اور یہیں سے کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کا آغاز ہوا۔جب برصغیرمیں تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تو مسلم لیگ کے پرچم کے سائے تلے بہادر کشمیریوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔پاکستان کے قیام کے دوران کشمیر کی دھرتی پاکستان کے حصے آئی لیکن بھارت نے اپنی طاقت اور غرور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرلیا۔47ء سے لے کر آج کئی سال گزر گئے لیکن کشمیری آج بھی بھارت کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔
پہلے یہ تحریک بزرگوں کے ہاتھوں میں تھی۔بوڑھے سید علی گیلانی میدان میں نکل کر اپنے ہم وطنوں کو ابھارا کرتے کہ نکلو اپنے مستقبل کی خاطر۔۔نجانے کتنے بزرگ دھرتی کشمیر کی آزادی کے لئے شہید ہوگئی۔جولائی 2016 ء میں تحریک آزادی برہان وانی کی شہادت کے بعد نیا رخ اختیار کرلیتی ہے۔برہان وانی نے جدید ٹیکنالوجی کا سہار ا لیتے ہوئے نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے ابھارا کہ وہ اپنے کل کے لئے اپنا آج قربان کریں۔یہی وجہ ہے جب برہان وانی کی شہادت ہوئی تو نماز جنازہ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔جس میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی تھی۔برہان وانی کی شہادت نے جنگ کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔کالجز اور یونیورسٹیز کے نوجوان تعلیم کو خیر آباد کہہ کر تحریک آزادی کے قافلے کے سپاہی بننے لگے۔پھر یہ ایسا دور شروع ہوا ماجد زرگر،منان وانی سے لیکر اب تک کشمیری تعلیم یافتہ نوجوان جانیں دیتے آرہے ہیں۔وہ سب یہی نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم پاکستان کے ساتھ جینا اور مرنا چاہتے ہیں۔
آپ سوشل میڈیاپر جاکر آسیہ اندرابی صاحبہ کی ویڈیوز دیکھیں وہ رو رو کر کہہ رہی ہیں کہ ہم اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ جینا اور مرنا چاہتے ہیں۔بحثیت پاکستانی ہم اتنی پاکستان سے محبت نہیں کرتے جتنی محبت اور الفت کشمیری کرتے ہیں۔آسیہ اندرابی صاحبہ پر زیادہ تر جو کسیز بنائے گئے وہ اسی بنیاد پر بنائے گئے وہ پاکستان کا نام لیتی ہیں۔وہ پاکستان کے قومی دنوں پر تقریبات کا اہتمام کرتی ہیں۔پاکستان کے پرچم کی حفاظت بھی اگر کسی نے سیکھنی ہے تو کشمیریوں سے سیکھے۔ہمارے لیے اس پرچم کی اہمیت چودہ اگست پر ہی بڑھتی ہے لیکن کشمیر کے لال چوک میں پاکستان کا پرثم لہرانے والے نوجوان کو شہیدکردیا جاتا ہے۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد جب تحریک نے زور پکڑا تو بھارتی حکومت نے وہاں اپنی فوج میں اضافہ کردیا۔سہولیات کو منقطع کردیا۔پیلٹ گن کا استعمال شروع کردیا۔ پیلٹ گن پر عالمی سطح پر پابندی کے باوجود بھارت نے نہتے کشمیریوں پر اس سے استعمال کیا۔ بنیادی طور پیلٹ گن جانوروں کا شکار کرنے کے لیے بنی ہے کیوں کہ اس سے چھرے چاروں سمت بکھر جاتے ہیں اور ہدف کو فوری نشانہ بنا لیتے ہیں۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ کشمیر میں یہ گن بے گناہوں پر استعما ل ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف مظاہرین کو نشانہ بناتی ہے بلکہ آس پاس کھڑے لوگوں یا راہگیروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔نجانے کتنے معصوم اس کا شکار ہوکر چلتی پھرتی لاش بن گئے۔اس کے علاوہ کیمکلز کا استعمال کیا جسے لاشیں جھلس جاتیں۔بھارت نے لاکھ حربے آزمائے لیکن وہ کشمیریوں کو دبا نہ سکا۔
بھارت کی موجودہ حکومت نے کشمیر میں عجیب گھناؤنا کھیل کھیلا جو اس سے قبل کسی حکومت نے نہیں کیا۔انہوں نے 5اگست 2019 کے دن آرٹیکل 35 اے اور370 کے ذریعے کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کردیا۔اس کے بعد کشمیر کی ساری قیادت کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔اسی سالہ بوڑھے سید علی گیلانی اور دمے کی مریضہ آسیہ اندرابی سے لے کر ہر اس نوجوان کو جیلوں میں ڈالا جس نے تحریک آزادی کے لیے بھارتی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ساتھ ہی پورے کشمیر پر مکمل لاک ڈاؤن کردیا۔میڈیا،مقامی صحافتی ادارے مکمل طور پر بند کردیے گئے۔عالمی ذرائع ابلاغ سے منسلک نمائندوں کو بھی مشکل کا سامنا تھا۔ٹرانسپورٹ بند کردی گئی۔کاروبار نظام معطل ہوگیا،اس دوران سینکڑوں کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔لاکھ حربے آزمائے گئے کہ کشمیری اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ جائیں وہ بھارت کو تسلیم کرلیں۔لیکن کشمیری ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے اور کررہے ہیں۔جعلی مقابلوں کے نام پر کشمیریوں کو گھروں سے اٹھا کر شہید کیا جانے لگا۔یہ زیادہ پرانی بات نہیں دو ماہ پہلے کشمیر میں سری نگر میں تین طالب علموں کو فیک انکاؤنٹر میں بھارتی فوج نے شہید کردیا،اس سے بڑھ کر بدمعاشی یہ کہ فیک انکاؤنٹرز میں شہید ہونے والوں کی لاشیں بھی واپس نہیں کرتے۔
وزیر اعظم عمران خان صاحب نے ہر فورم پر کشمیر کا مقدمیہ لڑنے کا اعلان کیا۔انہوں نے خود کو کشمیریوں کا سفیر کہا۔آئے روز کشمیر کے نام پر سیمینار منعقد کیے۔آج پانچ فروری کے دن بھی وہ آزاد کشمیر جائیں گے اور وہی تقاریر جاکر دہرائیں گے جواس سے قبل کرتے آرہے ہیں۔مانا کہ کشمیر کے لئے آواز اس حکومت نے جتنی بلند کی اس سے قبل کسی گذشتہ حکومتوں نے نہیں کی۔کشمیر میں کرفیو کے دوران ایک جھڑپ کے میں کچھ لوگوں کی شہادت کے بعد جب جلوس کی شکل میں اس کا جنازہ لے کر جایا جارہا تھا تو پاکستان کے وزیر اعظم کے حق میں نعرے لگائے جارہے تھے۔کشمیریوں کی نظر وزیر اعظم عمران خان پر ہے۔پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی مد میں ہر شق کو مانا اور اب بھی اس پر عمل کررہا ہے۔کیا اقوام متحدہ کی شقیں ان کی قراردادیں اتنی گئی گزری ہیں کہ بھارت ان کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں۔اقوام متحدہ کے مبصرین کشمیر کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔
دنیا یورپین ممالک سب جانتے ہیں۔اسلامی دنیا کے سربرہان بھی جانتے ہیں کہ کشمیر کے باسیوں پر کیا گزر رہی ہے۔لیکن خٓاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔پانچ فروری آتا ہے ہم پاکستانی بھی نعرے وغیرہ لگاکر ان سے اظہار یکجہتی کرلیتے ہیں پھر بھول جاتے ہیں،پانچ فروری بہت سے لوگ نہیں جانتے اسے ہی کیوں مقرر کیا گیا۔جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے اس تحریک کا آغاز کیا کہ پانچ فروری کا دن ہم کشمیریوں کے نام کریں گے اور یوں ہر سال یہ دن کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے منایا جانے لگا۔یہ وقت ہے ہم ہر فورم ہر سطح پر کشمیریوں کی آواز بنیں۔سیاست دان سیاسی اختلافات سے نکل کرکشمیر کی آواز بنیں۔کشمیر کی آواز بلند کرنے والے تحریک آزادی کے رہنماء کشمیر میں بھی قید بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں اور پاکستان میں بھی کشمیر کی توانا آواز اور جس سے سیدہ آسیہ اندرابی نے محسن کشمیر کا لقب دیا تھا قید کی زندگی گزار رہا ہے۔یہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کا قومیا ور ذاتی مسئلہ ہے۔ان سب کی رہائی کے لئے بھی پاکستان آواز بنے۔ہرسال پانچ فروری آتا ہے اور پانچ اگست کے بعد آج دوسرا پانچ فروری بھی آگیا ہے۔پانچ سو دن بھی گزر گئے خدایا کوئی تو وہ دن لا جب میرے وچن کی شہہ رگ کے باسی سکھ کا سانس لے سکیں اور آزادی کے ساتھ اپنی زندگی جی سکیں۔