تحریر: علی عمران شاہین کھانے کیلئے کوئی چیز پاس تو کیا، قریب قریب بھی نہ ہو، بدن سے لپٹے کپڑے گندگی اور غلاظت سے اٹ چکے ہوں اور بدلنے کیلئے دوسرا کوئی کپڑا نہ ہو… رات آئے تو رہنے کیلئے اوپر چھت نہ ہو… نیچے بستر نہ ہو… اور پھر … ساتھ ہی معصوم بچے اور عورتیں بھی اسی حال میں بلک رہے ہوں اور پھر عید بھی اسی حال میں آن پہنچے تو ذرا سوچئے کہ اس حال میں کیا اور کیسے گزرے گی؟ یہ کوئی محض تخیلاتی یا تصوراتی کہانی نہیں ہے بلکہ مقبوضہ کشمیر کے ان 6لاکھ سے زائد باسیوں کی عملی داستان ہے جن کے حالات شاید اس سے بھی بدتر ہوں گے۔
5ستمبر کو مقبوضہ جنوبی کشمیر میں جس سیلاب نے تباہی مچانا شروع کی تھی اور جس کے نتیجے میں لاکھوں گھر تباہ اور سارا نظام زندگی سونامی جیسی تباہی سے صفحہ ہستی سے مٹ گیا تھا، اب بھی اسی حال میں ہے لیکن پہلے دن سے لے کر آج تک ان کشمیریوں کی طرف کسی نے نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھا۔ مقبوضہ کشمیر میں عیدالاضحی کی آمد پر بڑے پیمانے پر قربانیاں ہوتی تھیں لیکن اس بار عید آئی، ساری مقبوضہ وادی میں قربانیوں کی تعداد سینکڑوںسے تجاوز نہ کر سکی۔ منڈیوں میں چند درجن جانور آئے تو خریدنے والا کوئی نہ تھا کیونکہ سارے ہی کشمیری اس قدر خانہ بربادہو چکے ہیں کہ ان کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل تر ہے۔ سرینگر کی دس ہزار سے زائد دکانیں اور کاروباری مراکز20فٹ سے زائد اونچے پانی کا شکار ہو کر نیست و نابود ہو چکے ہیں۔ سرینگر کے ایک خوبصورت اور ترقی یافتہ سمجھے جانے والے علاقے اندرانگر سونہ وار کے ایک رہائشی فاروق احمد میر نے عید کے فوری بعد ایک صحافی سے حالات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جب سیلاب یک لخت چڑھا تو پانی کے ریلوں نے منٹوں میں اس بستی کو ڈبو دیا۔ ہمیں اسباب خانہ بچانے کی بھی مہلت نہیں ملی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی سمندر کا رخ اس بستی کی طرف مڑ گیا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بستی کے تمام مکانات کی پہلی منزل ڈوب گئی۔ پھر بپھرا پانی دو منزلہ مکانات کی چھتوں تک پہنچ گیا۔ ہر سو نفسانفسی کا عالم تھا۔ لوگ اپنے بچوں، خواتین اور بزرگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے جس صورتحال کا مشاہدہ کیا اسے لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ اس آفت کو نازل ہوئے ایک مہینے سے زیادہ وقت گزر گیا ہے، لوگ علاقے میں معمولات زندگی بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کے مکانات گر گئے، وہ ملبہ ہٹانے کے کام میں مصروف ہیں۔ خواتین سیلاب کی وجہ سے خراب ہونے والے کپڑوں کو دھوتے ہوئے نظر آ رہی ہیں۔ بیشتر گلی کوچوں میں ابھی بھی پانی بھرا ہوا ہے۔ جہاں پانی پوری طرح اتر چکا ہے وہاں ہر طرف کیچڑ ہے۔
بے تحاشا کوڑے کرکٹ اور کیچڑ سے ناقابل برداشت بدبو اٹھ رہی ہے اور سبھی لوگ ہر وقت منہ ڈھانپے نظر آتے ہیں۔ جھیلوں اور چشموں کی سرزمین کے رہنے والے لیکن آج بدترین حالات سے دوچار ان کشمیریوں کے پاس اب نہ پینے کو پانی ہے اور نہ بجلی، گیس یا راشن… سو انہوں نے اپنی اس حالت زار کی آواز دنیا تک پہنچانے کیلئے عید سے چار روز قبل سرینگر سمیت کئی شہروں میں مظاہرے شروع کئے کہ شاید ان کی کچھ شنوائی ہو جائے اور انہیں کچھ نہ کچھ راحت کا سامان میسر آئے اور وہ عید پر کچھ خوشیوں کا اہتمام کر سکیں۔ اس ”عظیم جرم” پر انہیں اس سلوک کا سامنا ہوا جس کا ان کی نسلیں کرتی آ رہی ہیں یعنی مار دھاڑ، پکڑ دھکڑ اور ظلم و تشدد۔ 13اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر کے اخبارات نے لکھا کہ ہند سرکار نے اب تک ان کے لئے ایک معمولی ڈھانچہ تک دوبارہ تعمیر نہیں کیا اور نہ کسی کو امدادی رقم کی پھوٹی کوڑی تک ملی، البتہ مقبوضہ جموں میں جو ہندو آبادیاں پاکستان کی جوابی گولہ باری سے معمولی متاثر ہوئیں انہیں فوری طور پر امداد و تعاون کا اعلان نئی دہلی سے ہوا اور عمل درآمد بھی شروع کر دیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں سخت ترین سردی کے دن شروع ہیں اور لاکھوں لوگوں کے پاس رہائش تو کجا، تن ڈھانپنے کو کپڑے نہیں اور پھر ساتھ ہی بھارتی فورسز کی اندھیر نگری… مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اگر ان کٹھنائیوں سے گزر رہے ہیں تو 27کروڑ آبادی کے دعویدار بھارتی مسلمانوں کا حال بھی اس عیدالاضحی پر کچھ ایسا ہی رہا کہ انہیں ملک میں جگہ جگہ مارا پیٹا اور کاٹا ذبح کیا جاتا رہا۔ کیونکہ بھارت میں اس مودی کی سرکار ہے جو مسلمانوں کے قتل پر قصائی مشہور ہے۔ بھارت میں اس بار پہلے سے کہیں بڑھ کر عیدالاضحی پر قربانی کیلئے لے جائے جانے والے جانوروں کو لوٹا اور مسلمانوں کو مارا جاتا رہا۔
اترپردیش میں شاہ جہاں پور کے ہٹار علاقے میں پولیس نے ناکہ بندی کر کے مویشیوں سے بھرے ایک ٹرک سے 15گائیں اور 12بیل قبضہ میں لئے تو مسلمان بڑی مشکل سے ٹرک کو پل پر چھوڑ کر فرار ہونے اور جانیں بچانے میں کامیاب ہوئے۔ ریاست راجستھان کے سرحدی ضلع شری گنگا نگر کے سورت گڑھ کے علاقے میں ہندو بستی کے لوگوں نے مسلمانوں کے مویشیوں سے بھرے ٹرک کو خالی کرانے اور سارے جانوروں کو اپنے قبضے میں لینے کے بعد اس کو آگ لگا دی۔
Narendra Modi
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی طویل عرصہ گجرات کا وزیراعلیٰ رہا جہاں ساڑھے 12سال قبل مسلمانوں کا بدترین قتل عام اور ظلم ہوا تھا۔ آج اس گجرات میں ایک بار پھر مسلمانوں کے حالات بدتر ہیں۔ 6اکتوبر کو عیدالاضحی منائی گئی تو عید کے دوسرے دن ضلع نوساری میں ہندوئوں نے مسلمانوں پر اس وقت حملہ کر دیا جب وہ قربانی میں مصروف تھے۔ یہاں پولیس پہنچی تو اس نے مسلمانوں پر فائرنگ کر دی اور ایک مسلمان اشرف خان پٹھان کو شہید کر دیا جبکہ کئی ایک کو چھلنی کر دیا۔ واقعہ کی تحقیق ہوئی تو پتہ چلا کہ گائے کے ذبح ہونے کی محض افواہ اڑائی گئی تھی لیکن اب پولیس نے صرف مسلمانوں کی گرفتاریاں شروع کر رکھی ہیں اور سینکڑوں گھر ویران ہو چکے ہیں۔ پولیس نے گجرات کے سب سے بڑے دینی ادارے جامعہ تعلیم القرآن پر چھاپہ مار کر استاد مدرسہ مولانا عثمان کو بھی جیل میں ڈال دیا تو ہندوئوں میں سے کوئی گرفتار نہ ہوا۔ عید کے ہی روز ریاست مہاراشٹر کے علاقے بانسواڑہ کے گائوں دڑکی میں ہندوئوں نے مسلمانوں کے ایک گھر پر یہ کہہ کر حملہ کر دیا کہ اس گھر کے رہائشی 18 سالہ محمد سلیم نے سائیکل چوری کی ہے۔ محمد سلیم کو رات کے 4بجے دروازہ توڑ کر پکڑا گیا۔ پھر اسے اس کی ماں، بہن اور بھائی کے سامنے چھریوں سے کاٹ کر اس کا دل بھی نکال کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا بلکہ اس کے کپڑے اتار کر اس کا نازک حصہ بھی کاٹ دیا گیا۔ اس پر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے بھی آواز بلند کی لیکن کسی نے کب سننا تھی؟
بھارت میں عید کے انہی ایام میں مسلمانوں پر ایسی ہی قیامتیں گزرتی رہیں، اسی لئے تو 10اکتوبر کو ایک انتخابی جلسے میں مسلمانوں کی حالت زار کا رونا روتے ہوئے بیرسٹر اسد الدین اویسی کہہ اٹھے کہ بھارتی مسلمانوں کی 75فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے۔ ایک ایک کمرہ میں 5`5مسلمان زندگی گزار رہے ہیں اور یہ تناسب دیگر اہل وطن میں نہیں ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں ان کا تناسب چار فیصد سے کم ہے، مسلمانوں کو چپڑاسی کی نوکری ملنا بھی مشکل ہے۔ 6لاکھ سے زائد مسلم خاندان راشن کارڈ سے محروم ہیں۔ 65فیصد مسلم آبادی کے گھروں میں بیت الخلاء نہیں ہے۔
ان محرومیوں کے علاوہ دوسرا بڑا خطرہ بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری، ان کو ہلاک کیا جانا، ان پر مصائب توڑنے جانے کا ہے۔ انہوں نے دھولیہ، مالیگائوں، اورنگ آباد، بیڑ، پونے اور دیگر علاقوں میں پکڑے، جیل ڈالے، غائب کر دیئے گئے اور شہید کر دیئے گئے مسلم نوجوانوں کے نام گنوائے اور کہا کہ ان کے خون اور ان کے لواحقین کے آنسوئوں کی کون قیمت ادا کرے گا؟ انہوں نے کہا کہ ظلم کی اتنی داستانیں ہیں کہ یہ حکومت مظلوم کی آہوں کے سامنے ٹک نہیں پائے گی اور ختم ہو جائے گی لیکن یہ حکومت کیسے ختم ہو گی؟ یہ سوال بھارت کے 27کروڑ اور امت کے پونے دو ارب مسلمانوں کیلئے ایک چیلنج ہے۔