کشمیری ہماری شہ رگ ہے۔ کشمیر سے پانی آنابند ہو جائے تو ہمارے زمینی بنجر ہو جائیں گی۔ کشمیر میں ہمالیہ ہماری شمال مشرقی سرحد کو محفوط کرتا ہے۔ اگر کشمیر پاکستان میں شامل نہ ہوئی تو ہمار ازلی دشمن، بھارت ہماری شمال مشرقی سرحد پر آبیٹھے گا۔ کشمیر تکمیل پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ سب سے بڑی بات کہ کشمیری مسلمان ہیں، جن کی مدد کرنا ہم پر شری طور پر فرض بنتا ہے۔ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت کشمیر کو پاکستان کے ساتھ ملنا تھا۔ بھارت نے کشمیرذبردستی قبضہ کیا۔کشمیر کا موجوہ تین سو میل لمبا اور تیس میل چوڑا آزاد کشمیر کا علاقہ، راجہ ہری سنگھ اور بھارت کی فوجوں کو شکست دے کر پاکستان نے آزاد کریا۔ گلگت و بلتستان کے مقامی مجائدین نے راجہ ہری سنگھ کی فوجوں کو شکست دے کر گلگت بلستان کو آزاد کرایا۔ سارا کشمیر بھی آزاد ہو جاتا مگر پاکستان کے خلاف سازش کی گئی ۔بھارت کا وزیر اعظم پنڈت جواہر لال عین جنگ کے دوران اقوام متحدہ گیا۔
جنگ بندی کے درخواست کی۔ اقوام متحدہ ،کشمیریوں اور پاکستان کے ساتھ وعدہ کیا کہ امن قائم ہونے پرً کشمیرمیں رائے شماری کروائی جائے گی ۔ کشمیری بھارت یا پاکستان میں شامل ہونا چائیں ان کے فیصلے کا احترام کیا جائے گا۔ یہ دن اور وہ دن بھارت اپنے وعدے سے مکر گیا۔ کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑنا شروع کیے جو اب تک جاری ہیں۔ بھارت نے کشمیر مسئلہ پر کئی جنگیں مسلط کیں۔ نائین الیون کا فائدہ اُٹھتے ہوئے ٢٥ فروری ٢٠١٩ء کو کشمیر کے لیے بھارتی آئین میں خصوصی دفعات ٣٧٠ اور ٣٥ اے کو غیر قانونی طور پر ختم کر کے کشمیر کو بھارت میں ضم کر لیا۔کشمیریوں نے پہلے سے جاری تحریک آزادی کشمیر میں تیزی لائی۔ بھارت ٢٥ فروری سے تا دم تحریر کشمیر میں لاک دائون نافذ کیا ہوا ہے۔ہر طرح کے ذرائع ابلاغ پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ اندر کی بات دنیا کے سامنے نہیں آ رہی۔ جب لاک ڈائون ختم ہو گا تو ظلم کی داستانوں کا دنیا کو پتہ چلے گا۔
پاکستان کے سارے حکمرانوں کا کشمیر کے متعلق رویہ معذرتانہ رہا ہے۔ جبکہ بھارت نے جارحانہ رویہ اپنائے رکھا۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے اوئٹ آف بکس فارمولہ پیش کیا۔ جب کہ پاکستان کا رائے شماری کامؤقف، اقوام متحدہ نے اپنی گیارا قراردادوں میں تسلیم کیا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں بھارت کو موسٹ فیورٹ قوم کا درجہ دینے کی کوشش کی۔ بھارتی وزیر اعظم راجیوکے دورے کے وقت اسلام آباد کی سڑکوں سے کشمیر کے بورڈ ہٹا دیے گئے۔بھارت کو سکھ حریت پسندوں کی فہرستیں فراہم کیں۔ نون لیگ کے زمانے میں تو حد ہو گئی۔
کشمیر کو ایک طرف رکھ کربھارت کے ساتھ آلو پیاز کی تجارت کی۔ نواز شریف نے لاہور میں ایک تقریب کے دوران پاکستان کی بنیادیوں اورقائد اعظم کے دو قومی نظریہ پر حملہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت اور پاکستان ایک قوم ہے۔ ایک جیساکھاتے ہیں۔ ایک جیسا پہنتے ہیں۔ درمیان میں بس ایک لکیر ہے جس نے ہم دونوں کو بانٹا ہوا۔ پاکستان میں جمہوریت ہے مگر نواز شریف صاحب نے مغل بادشائوں جیسا رویہ اختیار کر کے، دہشت گرد مودی ،بھارت کے خفیہ کے سربراہ اجیت دول اور اپنے ذاتی دوست بھارت کے اسٹیل ٹائیکون جندل کو بغیر ویزوں اور وزارت خارجہ کو اطلاع کیے بغیر، ذاتی طور پر اپنے گھر لاہور جاتی عمرا کے محل میں بلایا۔تحائف کا تبادلہ کیا۔ پھر اسی اسٹیل ٹائیکون جندل کو بغیر قانونی کاروائی اور ویزہ کے بغیر مری میں نجی ملاقات کی۔ جب میڈیا نے شور مچایا ۔تو مغل شہزادی مریم صفدر صاحبہ نے بیان دیا جندل ہمارا ذاتی دوست ہے۔
پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں نے بھارت کا حاضر سروس نیوی کے کمانڈر گلبھوشن یادیو کو جاسوسی کے الزام میں پکڑا۔ اس نے پاکستان میں دہشت گردی کر کے ہزاروں انسانوںکوشہید کرنے اور ایم کیو ایم کوفنڈ دینے کا اعتراف کیا۔ نواز شریف صاحب نے گلبھوشن یادیو کا اپنے دور حکومت میں کبھی بھی نام نہیں لیا۔ نواز شریف دور کی وزارت خارجہ کی سپوک لیڈی نے میڈیا میں خبر دی کہ ہمیں بھارت کے خلاف بولنے سے نواز شریف نے منع کیا تھا۔ شاید اسی وجہ سے بھارت کے خفیہ کے سربراہ اجیت دول نے نواز شریف صاحب کی معزولی پر بیان دیا تھا” ہم نواز شیرف کا ساتھ دیں گے۔ ہم نے نواز شریف پر کافی انوسٹمنٹ کیا ہوا ہے” کتنے شرم کی بات کہ دشمن کسی پاکستان حکمران کے لیے میڈیا میںاعلانیہ ایسا بیان دے۔ نواز شریف صاحب پھر کہتے ہیں” مجھے کیوں نکالا” بھائی صاحب آپ کو پاکستان کی ساتھ دشمنی کی بنیاد پر نکالا گیا۔
عمران خان نے کشمیر بارے پاکستان عوام کی ترجمانی کرتے بھارت کو للکارا۔ اقوام متحدہ میں ایسی تقریر کی کہ جس نے بھارت کے ایوانوں میں کھلبلی مچا دی۔٢٥ فروری کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے پر جرأت مندانہ طریقے سے احتجاج کیا۔ بھارت اور دنیا کے سامنے بات رکھی اور قوم کو حوصلہ دیا۔ مودی کے ہٹلر والے کردار کو بین الالقوامی طور پر عام کیا۔ آر ایس ایس کا دہلیری سے بھونڈا پھوڑا۔ اس سے پاکستان کابچہ بچہ اس دہشت گرد فاشسٹ اور ہٹلر کی پیروی کرنے والی دہشت گرد تنظیم کے عزاہم سے واقف ہوگئے۔ کشمیر کے ساتھ بھارت کے مظلوم مسلمانوں کے لیے بھی آزاد اُٹھائی۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی کہ دنیا میں کررونا وائرس کا عذاب نازل ہوا۔ ہر کوئی حکومت سارے معاملے ایک طرف رکھ کر اس قدرتی آفت کے مقابلے میں لگاگئی۔ ہمارا ملک بھی اس میںہی مصروف ہو گیا۔ بھارت اب بھی آزاد جموں کشمیر گلگت بلتستان پر حملہ کرنے کے دھمکیاں دے رہا ہے۔جنگ بندی لائن پر جنگ کا سامان پید کیاہوا۔
قارئین! ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت پاکستان کو ختم کرکے اکھنڈ بھارت میں ضم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اُس نے اپنی قوم کو بھی پاکستان سے جنگ کرنے کے لیے تیار کیا ہواہے۔ہم نے کشمیر بارے اپنے ہر کالم میں حکومت کو مشورے دیے کہ اگر ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں تو بھارت ہمیں ہڑپ کر لے گا۔لہٰذا ہم کو جا ہرانہ طور پر آگے بڑھنا ہو گا۔ کشمیری تو اس مشکل دور میں بھی بہادری سے لڑ رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت کو کشمیر کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ پاکستان کے اخبارات کو اپنے فرنٹ صفحہ پر تحریک آزادی کشمیر کی آگاہی کے لیے” کشمیر میں لاک ڈائون کے اتنے دن ہوئے گئے ہیں” کا اشتہار لگانا چاہیے۔ نوائے وقت اخبار یہ کام بڑی کامیابی سے کر رہا ہے۔
حکومت ہر ہفتہ بروزجمعہ پورے پاکستان سے کشمیر میں عام شہریوں، انسانی حقوق کی تنظیموں ، سول سوسائٹی کی تنظیموں، وکیلوں اور صحافیوں یعنی سارے اداروں کو ایک ایک کو بلا کر آزاد کشمیر کے شہر مظفر آباد سے چکوٹی تک بھارت کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔ اس سے مقبوضہ کشمیر کے اندر اور کنٹرول لین پر پاکستانی عوام اور فوج کے حوصلے بند ہوںگے۔ بیرونی معاذ کے لیے آزاد کشمیربیس کیمپ میں سرکاری طور پر پاکستان جیسی کشمیر کمیٹی بنائی جائے۔ اس میں آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم کی حوصلہ افضائی کی جائے۔ یہ کمیٹی عالمی انسانی حقوق اور جرنل اسمبلی کی قرارداوں کی بنیا د پرعالمی عدالت میں کشمیر کا مسئلہ اُٹھائے۔یورپ مشرق بعید، امریکا اورعرب ممالک میں پہلے سے موجود کشمیریوں اور کشمیری تنظیمیں جو کشمیر مسئلہ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں کو مذید فعال کرے۔بھارت کی معاشی اور سیاسی بائیکاٹ کی مہم چلائی جائے۔
پاکستان میں ایک نائب وزیر خارجہ برائے کشمیر مقرر کیا جائے۔پاکستان کی کشمیر کمیٹی میں کسی فعال شخص کو لگایاجائے۔ پاکستان کے دنیا میں سارت سفارت خانوں میں کشمیر انفار میشن ڈکس بنائے جائیں۔ حکومت کی پالیسی ٹھیک ہے کہ ہم حملے میں پہل نہیں کریں گے۔ مگر بھارت نے پھر جارحیت کی تو اس کا پہلے سے سے سختی سے جواب دیا جائے ۔ عمران خان صاحب اپوزیشن کے ساتھ اپنا پہلے والا رویہ بدلے۔ آزاد کشمیر میں اکیلے جا کر جلسہ کیا تھا۔اکیلے چلنے کے بجائے ملک کے ساری سیاسی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اختیار کی جائے۔۔اس نازک موقعہ پر قومی اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ عام پاکستانی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ملک میں اسلامی نظام حکومت کا اعلان کردیا جائے۔ اس سے پچھتر سال سے اسلامی نظام کو ترسنے والی قوم یک جان ہو جائے گی۔ بھارت پر خوف تاری ہو جائے گا۔ پھر عمران خان بھارت کو اپنے اکھنڈ بھارت کے ڈاکٹرائین کو تبدیل کرنا کا کہے۔ کہ تم بھی جیو ہمیں بھی جینے دو۔ نہیں تو ایٹمی اور میزائل قوت والی پاکستانی فوج اور عوام، جہاد فی سبیل اللہ کے بل بوتے پر بھارت دانت گھٹے کر دیں گے۔ اللہ پاکستان کشمیر بھارت کے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے آمین۔