٢٧ اکتوبر ٢٠١٨ء کو کشمیری قوم مقبوضہ کشمیر، آزاد جموں و کشمیر اور پوری دنیا میں یوم سیاہ منا رہی ہے۔ ١٩٤٧ء سے لیکر آج تک یہ دن ہر سال کشمیری مناتے ہیں۔اس دن سفاک اور دہشت گرد بھارت نے بین الاقوامی اصولوں کو پا مال کرتے ہوئے ہوائی راستے سے فوجوں اُتار کر جموں و کشمیر پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس سفاکیت کے خلاف کشمیری قوم اُس دن سے ہی سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔کشمیر پاکستان کا پانچواں صوبہ ہے جس پر بھارت قابض ہے۔کشمیری تکمیل پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ اپنی لاشوں کو پاکستان کے ہلالی پرچم میں لپیٹ کر دفناتے ہیں۔ پاکستان کشمیریوں کا پشتی بان ہے۔ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائد اعظم محمد علی جناح کی جمہوری جد وجہد کے ذریعہ بنا تھا۔ جب برصغیر میں انگریزوں کی غلامی سے نجات کے لیے تحریک چلی تو ہندوئوں نے کہا تھا کہ بھارت میں صرف ایک قوم رہتی ہے جس میں ہندو، مسلمان،سکھ اور عیسائی شامل ہیں ۔ان سب قوموں کی نمایندہ سیاسی جماعت آل انڈیا کانگریس ہے۔ کچھ کانگریسی مسلمانوں کو ملا کر یہ بیانیہ بھی جاری کیا کہ قومیںاوطان ،یعنی وطن سے بنتی ہیں۔
لہٰذا اقتدار ہندوئوں اور مسلمانوں کی نمایندہ جماعت کانگریس کے حوالے کیا جائے۔ مگر قائد محترم نے کہا کہ برصغیر میں ایک نہیں دو قومیں رہتیں ہیں ایک ہندو اور دوسری مسلمان۔ اگر انگریزوں نے اقتدار صرف ہندوئوں کے حوالے کیا تو مسلمانوں کے ساتھ بے انصافی ہوگی۔ ہندو اپنی اکثریت کی بنیاد پر مسلمانوں کے حقوق کو ہڑپ کر لیں گے۔ اس لیے اقتدار دو قوموں،ہندوئوںاور مسلمانوں کے حوالے کیاجائے ۔دونوں قوموں کے مذہب ،سماج ،تہذیب، ثقافت،رہن سہن کے طریقے، کھانے پینے، لباس، ان کی تاریخی کہانیاں اور ہیرو سب کچھ مختلف ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے برصغیر پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے ان کا حق ہے کہ ان کو علیحدہ ملک میں اپنی تہذیب، تمدن، راویات اور مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا موقعہ ملنا چاہیے۔ قائد اعظم نے مسلمان قوم کو آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد کیا۔ اور ان کو سلوگن دیا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ۔مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ لے کے رہیں گے پاکستان۔ بن کے رہے گا پاکستان۔ قائد اعظم نے کہا کہ ہم پاکستان کو مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست طرز کی ریاست بنائیں گے۔ پھر قائد اعظم نے برصغیر کے اندر ایسی زبردست تحریک پاکستان اُٹھائی کہ اس کے سامنے نہ انگریز اور نہ ہی ہندو ٹھر سکے۔
قائد اعظم نے جمہوری طریقے سے اپنی بات منوائی۔ پھر دو قومی نظریہ کو تینوں فریقوںیعنی انگریز ،ہندوئو ں اور مسلمانوں نے تسلیم کیا۔ وہ یہ کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں پاکستان بنے گا اورجہاںہندوئوں کی اکثریت ہے وہاں بھارت بنے گا۔ ساتھ ہی ساتھ جو ہندو آبادی والی ریاستیں ہیں وہ بھارت میں اور جو مسلمانوں کی ریاستیں ہیں وہ پاکستان میں شامل ہو جائیں گی۔ اس طرح ریاست حیدر آباد اور جونا گڑھ میں ہندو زیادہ تھے مگر ان میں حکمران مسلمان تھے۔ان ریاستوں کے حکمرانوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا کہا مگر ان ریاستوں پر بھارت نے بزور قبضہ کر لیا۔ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی مگر اس کا راجہ ہند تھا۔ لہٰذا اس کو پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ مگر تقسیم ِبرصغیر کے فارمولے کے خلاف بھارت نے انگریز اور راجہ جموں کشمیر سے سازش کر کے کشمیر میں بھی ٢٧ اکتوبر ١٩٤٧ء کو اپنی فوجیں داخل کر کے کشمیریوں کی خواہش کے بل مقابل کشمیر پرزبردستی قبضہ کر لیا۔ پھر گلگت بلتستان کے عوام نے راجہ کی فوجوں سے لڑکر اِسے آزاد کرا لیا۔ جموں اور وادی کشمیر کو بھارت کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے کشمیریوں،سرحد کے قبائلیوں اور پاکستان فوج نے آگے بڑھ کر موجودہ آزاد جموں کشمیر کا تین سو میل لمبا اور تیس میل چوڑے علاقے کو آزاد کرا لیا۔
یہ مشترکہ فوجیں سری نگر تک پہنچنے والی تھیں کہ بھارت کے اُس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہرلال نہرو صاحب اقوام متحدہ میں جنگ بندی کے لیے پہنچ گئے اور درخواست دی کہ جنگ بند کر دی جائے اور امن قائم ہونے پر کشمیریوں کو حق خودارادیت دے دیا جائے گا۔ وہ دن اور آج کا دن کہ وہ اپنے سیاسی رہبرچانکیہ کوٹلیہ کے سیاسی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے، کہ دشمن سے پہلے دوستی کا دم بھرو، پھر اسے قتل کرو اور پھر اس کے قتل پر آنسو بھی بہائو والا فامولہ لاگو کرکے کشمیریوں کو ذبح کر رہا ہے۔ بھارت نے اپنی آٹھ لاکھ فوج کشمیر میں لگائی ہوئی ہے۔پورا کشمیر فوجی چھاونی کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔
کشمیریوں کو ہلاک کرنے ان کی نسل کو ختم کرے اورہمیشہ غلام رکھنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ بھارت کشمیر میں کیمیائی ہتھیاراستعمال کر رہا۔ قید خانوں میں سیکڑوں کشمیری نوجوانوں کو زہر آلود کھانا کھلا کر آپائج کر دیا۔پھر ان ڈھانچوں کو آزاد کیا، تا دوسرے عبرت پکڑیں اور آزدی کی جد و جہد چھوڑ دیں۔ یہ لوگ اب بھی کشمیر کے بازاروں میں چلتی پھرتی لاشوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔میری لائبریری میں ان چلتی پھرتی لاشوں کے فوٹوں سے بنی کتاب موجود ہے۔ ہزاروںکشمیری خواتین کے ساتھ جابر قابض بھارتی فوجیوں نے اجتمائی آبروزیزی کی تاکہ ان کے خاندان یہ رویہ دیکھ کر آزادی سے باز آ جائیں۔ ان مظلوم بے بس کشمیری خواتین کی داستانوں سے بھری کتاب جس کو عبدالقیوم نامی کشمیری نے لکھا ہے بھی میری لائبریری میں ہے۔ برسوں سے ہزاروں کشمیری نوجوان بھارت کی قید میں بند ہیں۔ ان کی بنیادی انسانی حقوق کو پامائل کیا جارہا ہے۔ بھارت کے زیر سایہ عدلیہ ان بے قصور کشمیریوں کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں۔جعلی ان کاوئنٹر کا بہانہ بنا کر نوجوانوں کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ ان کی لاشوں کو جنگلات اور ویرانوں میں پھینک دیا جاتا ہے یا اجتمائی قبروں میں دفن کر دیا جاتا ہے۔کئی کشمیریوں کو غائب کر دیا ہے جن کے انتظار میں ان کی مائوں، بہنوں اور بیویوں کے آنسو، رو رو کو ختم ہو گئے ہیں۔کشمیریوں کی درجنوں اجتمائی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔
اگر وادی کا بہانا بنا کر نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ یہ سرحد پار سے آئے ہیں۔مسلمانوں کی کھیتوں میں لہلاہاتی فصلوں کو گن پائوڈر چھڑک کر خاکستر کر دیا جاتا ہے۔ کشمیریوں کی دو کانوں، گھروں،پھلوں کے باغوں کو جلایا جارہا ہے۔ان کے بزرگوں کے مزاروں کو آگ لگائی جاتی ہے۔ان کو مذہبی فرائض ادا کرنے نہیں جاتا۔ نمازجمعہ پر اکژ پابندی لگائی جاتی ہے۔ حریت لیڈر شپ کو قید کر دیا جاتا ہے۔ اخبارات پر پابندی ہے۔ سچ لکھنے والے صحافیوں کو قتل کر دیا جاتاہے۔ آئے دن انٹر نیٹ پر پابندی لگا دی جاتی ہے تاکہ مظالم کی خبریں باہر نہ جا سکیں۔ نہتے مظاہریں پر پیلٹ گنیں چلا کر سیکڑوں کو اندھا کر دیا ہے۔ کشمیریوں کو قتل کر کے ان کی لاشوں کو زنجیر سے باندھ کر بازاروں میں گھسیٹا جاتاہے۔مظاہرین ان مظالم کے خلاف احتجاج کرتے اور قابض فوج پرپتھرائو کرتے تو فوجی گاڑیو ں کے بونٹ پر کشمیری نوجوان کو باندھ دیا جاتا ہے تاکہ پتھر بھارتی فوجی کے بجائے اس کو لگیں۔ بھارتی مظالم کے خلاف مظاہرہ کرنے والی کشمیری اسکول کی بچیوں کے چوٹیا ں قینچی سے کاٹی جاتی ہیں تا کہ وہ گھبرا کر گھروں میں بیٹھ جائیں۔ دنیا کا بدنام ترین گھروں کے محاصرے کا طریقہ اپنا کر عورتوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ محاصرے کے دوران گھروں کو گن پائوڈر سے اُڑا دیا جاتا ہے۔
لوگ احتجاج کرتے ہیں تو ان پر گولیاں چلائی جاتیں ہیں۔ کون سا ظلم کا حربہ رہ گیا ہے جو بھارت کی سفاک فوجیوں نے کشمیریوں پر استعمال نہ کیا ہو۔بیلٹ گنوں سے اندھوں ہونے واکے کشمیریوں کے علاج کے لیے اگر کوئی ملک کہتا کہ ہم ڈاکٹر بھیجتے کہ ان کا علاج کیا جائے تو اس کی اجازت نہیں دی جاتی۔ کشمیر اب بھارتی فوج کی طرف کشمیریوں کی قتل گاہ بن چکی ہے۔اگر دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیر کے حالات کا مشاہدہ کرنے کی اجازت مانگتیں تو بھارت ان کو بھی اجازت نہیں دیتا۔ صحافیوں اوراخباروں کے نمایندوں کا کشمیر میں داخلہ بند ہے۔اب اللہ اللہ کر کے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق نے کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالی پر رپورٹ تیار کی جو دل ہلا دینے والے مظالم پر مبنی ہے۔ بوڑھوں ، بچوں، لڑکوں، لڑکیوں ، مرد ،عورتوں کو جانوروں کی طرح ذبح کیا جارہاہے۔ کشمیریوں کی آبادی کو محفوظ رکھنے کے لیے بھارتی آئین کی خصوصی دفعہ جس میںلکھا ہے کہ کشمیر میں کوئی بھی غیر کشمیری جائداد نہیں خرید سکتا۔ اس شک کو ختم کرنے اور کشمیریوں کی آبادی کو گھٹانے کے لیے دہشت گرد آئی ایس ایس کے کارندوں نے بھارتی سپریم کورٹ کے اندر رٹ داخل کی ہوئی ہے جس کی تاریخیں پڑھ رہی ہیں۔ کسی بھی وقت بھارت کی متعصب عدلیہ یہ خصوصی شک بھی ختم کر دی گی۔
ان حالات میںمسلمانوں کا اقوام متحدہ سے یہ کہنا ہے کہ جب اسلامی ملک انڈونیشاء اور سوڈان میں عیسائی اقلیتوں نے علیحدہ وطن اور آزادی مطالبہ کیا تو اسے فوراً آزادی دلا دی گئی۔ پھر جب اقوام متحدہ میں بھارت کے سابق وزیر اعظم کے لکھے ہوئے وعدے، کہ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے گی ۔ اس کے حوالے سے منظور شدہ کئی قرارادادیں بھی اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ تو بھارت کو اپنا وعدہ پورا کرانے کے لیے اقوام متحدہ کیوں نہیں زور دیتی؟ کیونکہ اقوام متحدہ پر یہود و نصارا کا کنٹرول ہے جو مسلمانوں کے دشمن ہیں۔اس سے صاف نظر آتا ہے کہ مسلمانوں سے جانبداری برتی جا رہی ہے۔ایسے حالات میں اگر کشمیری مسلمانوں پر بھارت کی سفاکیت اور ظلم ستم کی وجہ سے مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ بھر گیا اور تنگ آمد بہ جنگ آمد پر آمادہ ہو کرجہاد فی سبیل اللہ کااعلان کر دیا تو تمھارے ایٹم بم اور جدید اسلحہ پڑے کا پڑارہ جائے گا۔ مسلمانوں نے اپنے ساتھ تمھارے روا رکھے گئے مظالم کا بدلالینے کا وقت کسی بھی موقعہ پر آسکتا ہے۔ بقول شاعر اسلام علامہ اقبال:۔
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں میں نے، کہ وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
تمھارے ظلم ستم اور تعصب سے تنگ آکر اگر ایسا ہو گیا تو پھر جہادی مسلمان تم سے ترکی کی خلافت کو ختم کرنے،لیبیا،شام ،عراق، افغانستان کے مظالم، فلسطین پر جبراً یہودیوں کا قبضہ کرانے،بوسنیا میںساٹھ ہزار مسلم مظلوم خواتین سے آبروزیزی کرنے ،چیچنیا کے مظالم، برما کی خونریزی،اور کشمیر کے ان مظالم کا بدلہ لیا جائے گا۔ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے کہ غم نہ کرو، دلبرداشہ نہ ہو اورپریشان نہ ہو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔ ہم مسلم حکمرانو ں اور عوام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اُٹھو تم کو شہیدوں کا لہو آواز دیتا ہے۔تمھارے اُٹھنے سے تکمیل پاکستان ہو گا۔کشمیر میں مظالم ختم ہو نگے اورکشمیر آزاد ہو گا۔ ساری مسلم دنیا پر مظالم ختم ہونگے۔ یہی ٢٧ اکتوبر یوم سیاہ کا پیغام ہے۔جماعت اسلامی اور حکومت کے امورکشمیر وزیر نے ٢٧ اکتوبر کو یوم سیا ہ منانے کا اعلان کیا ہے جو خوش آیند ہے۔