تحریر: علی عمران شاہین یہ انگار وادی کے جنوبی علاقہ کا ضلع کولگام اور اس کا گائوں کھانڈی پورہ ہے۔ بھارتی فوج کو پتہ چلا ہے کہ یہاں ان کو سب سے مطلوب لشکر طیبہ کا کمانڈر ابو قاسم موجود ہے۔ ابھی اندھیرا چھانا شروع ہوا ہے کہ ہزاروں فوجی آناً فاناً علاقے کا تیزی سے گھیرائو کر لیتے ہیں۔ رات کے آخری پہر لگ بھگ اڑھائی بجے یک دم سارا علاقہ گولیوں کی گھن گرج سے لرزنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہر گزرتے پل کے ساتھ دھماکوں اور زمین کا سینہ دھلا دینے والی بارودی آوازوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔
عالم یہ ہے کہ ایک اذان مکمل کرنے کے لئے 22جانیں دینے والے کشمیری آج اذان فجر نہیں دے پا رہے۔ صبح کا سورج طلوع ہوا، پھر کئی گھنٹے کی خاموشی کے بعد گیارہ بجے محاصرہ ٹوٹا… تو تب علاقے کے لوگوں کو پتہ چلا کہ گزری شب جو قیامت بیتی، اس میں تو ان سب کے دلوں کی دھڑکن، سب کی دعائوں کا مرکز ،جنت ارضی کا وہ مہروماہ کہ جس پر وہ سب فدا تھے، ہمیشہ کیلئے جدا ہو کر دوسرے جہاں کے سفر پر روانہ ہو گیا ہے۔ ”ابو قاسم بھائی شہید ہو گئے…” یہ خبر جس جس کسی کو جیسے جیسے ملتی، لگتا کہ اس کا سینہ شق ہو گیا ہے اور لگتا کہ وہ بولنا بھول جاتا… زبانیں گنگ محسوس ہوئیں، دل ڈوبنے لگتے، آنکھوں کے سامنے اندھیرے چھانے لگتے… لیکن، جو تقدیر میں لکھا ہو، اسے بھلا کون ٹال سکتا ہے…؟ بس یہی سوچ سب کو پھر سے جینے کا سہارا دیتی…لمحوں،گھڑیوں میں یہ خبر علاقے بھر میں پھیلی تو یوں لگا جیسے آج سب گھروں کا سب سے لاڈلا چراغ گل ہو گیا ہے۔
سننے والوں کو کچھ ہوش آیا تو پتہ کرنا شروع کیا گیا کہ ابوقاسم بھائی کا جسد خاکی کہاں ہے…؟ بتایا گیا کہ جسد خاکی بھارتی فورسز نے کولگام پولیس لائن پہنچا دیا ہے۔پل بھر میں سارے جنوبی کشمیر کی ٹریفک بند،سڑکیں سنسان، اور ہر دروازہ چوپٹ تھا…چہار اطراف سے مرد و خواتین، بچے اور بوڑھے کولگام پولیس لائن کی جانب امڈے چلے آ رہے تھے… کسی کو ہوش نہیں تھا کہ اس کے ساتھ بھارتی فورسز کیا سلوک کریں گی…؟ وہ تو جیسے بس اسی دھن میں مگن تھے کہ جہاں ابوقاسم پہنچ چکا، ہم سب بھی اس کے ساتھ ہی جائیں گے۔ ”ہم کیا چاہتے…؟ آزادی… آزادی کا مطلب کیا…؟ لاالٰہ الا اللہ… بھارت تیری موت آئی… لشکر آئی… لشکر آئی ”کی فلک شگاف صدائیں ہر طرف بلند ہو رہی تھیں اور کشمیریوں کے ایک بحربے کراں نے پولیس لائن کا گھیرائو کر لیا تھا۔
Indian Forces
ہر دم بڑھتے ہجوم، جوش و جذبہ اور بگڑتے حالات دیکھ کر ابوقاسم جسد خاکی ان کے حوالے کر دیا گیا۔ کشمیریوںکو ابوقاسم کا جسد خاکی کیا ملا…؟جیسے دنیا کی سب سے بڑی خوشی مل گئی۔ وہ سٹریچر پر رکھے ابوقاسم کو اٹھائے جنازہ کے لئے مقامی سکول کے میدان کی جانب بڑھ رہے تھے۔ تاحدنگاہ پھیلے اس ہجوم کے راستے میں سی آر پی ایف کا 18بٹالین ہیڈ کوارٹرز آ گیا۔غم و غصے اور جرأت و دلیری کے جذبات سے بپھرے کشمیریوں نے ہیڈ کوارٹرز پر پتھروں کی بارش کی،موت کے خوف سے آہنی وفولادی بنکروں کے پیچھے چھپی بھارتی فورسز نے بے تحاشا ہوائی فائرنگ کی کہ شاید کشمیری ڈر کر بھاگ جائیں گے لیکن آج تو سبھی جیسے جانوں کی بازی لگانے کی قسم کھا کر آئے تھے۔ کسی کشمیری کے پائوں میں لغزش نہ تھی اور سبھی ابوقاسم کے راہی بننے کے جوش سے لبریز تھے۔ انہوں نے گولیو ںکی آواز سن کر کیمپ کے باہر کی خاردار تاروں اور بنکر کو تہس نہس کر کے رکھ دیا اور اسی انداز میں آگے بڑھ گئے۔ ہرکسی کی کوشش تھی کہ وہ ابوقاسم کے جنازے میں کسی طرح شریک ہو جائے۔ یہ سارا قصہ بھی منٹوں کا تھا کیونکہ سورج غروب ہونے سے پہلے تدفین بھی طے ہو چکی تھی۔
جسد خاکی کو جنازے کیلئے رکھا گیا تو ایک بزرگ ہاتھ میں دودھ کا گلاس لئے نمودار ہوئے کہ ہمارا بیٹا تو جنت کی حوروں کا دولہا بن کر جا رہا ہے، ہم اسے دودھ پلا کر روانہ کریں گے۔ ابوقاسم کی آنکھیں تو پہلے ہی کھلی تھیں۔ ان کی کھلی آنکھوں کو دیکھ کر کئی گھنٹے بھارتی فورسزجسد خاکی پاس جانے سے خوفزدہ رہی اور بار بار گولیاں برساتی رہی تھیں۔ ہونٹ کھول کر دودھ ٹپکایا گیا اور پھر… جسد خاکی اٹھانے سے پہلے نیا تنازعہ کھڑا تھا۔ ضلع پلوامہ کے علاقہ کاکہ پورہ کے بے شمار لوگ اصرار کر نے لگے کہ ابوقاسم بھائی کو ان کی وصیت کے مطابق ان کے علاقے میں سپردخاک کیا جائے گا۔ پلوامہ کے سرنو گائوں کے ایک بزرگ محمد احسن آگے بڑھ کر بتانے لگے کہ یہ ان کے بیٹے تجمل کی لاش ہے جو دس سال پہلے گھر چھوڑ گیا تھا۔ دوسرا گروہ مقامی علاقے کھانڈی پورہ کا تھا جو کہہ رہا تھا کہ ابو قاسم اسی علاقے کے محمد یعقوب کے بیٹے ہیں جو 22سال پہلے مجاہدین کی صفوں میں شامل ہو گئے تھے۔
Commander Abu Qasim Funeral
ہزاروں لوگ ایک طرف تو ہزاروں ہی دوسری طرف… دو گھنٹے اسی بحث و تمحیص میں گزر گئے تھے کہ یہ ہمارا بیٹا… ہمارے علاقے کا جوان ہے… تو دوسری طرف سے آواز آتی نہیں،یہ ہمارا بیٹا… ہمارے علاقے کا ہے۔ بالآخر مقام شہادت کو ترجیح دے کر کھانڈی پورہ میں تدفین کا فیصلہ ہوا۔ ابوقاسم تو رخصت ہو گیا لیکن بھارتی فوج کے بیسیوں جوان کئی دن سے اس کی قبر پر بندوقیں تانے کھڑے ہیں۔ سنا تھا کہ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بڑی دیر بعد تک انگریز لاش کے پاس جانے سے ڈرتے تھے لیکن یہاں تو معاملہ اس سے کہیں آگے ہے کہ قبر تک سے فوجی پہرہ نہیں ہٹایا جا رہا۔ منی سپر پاور کہلانے کا دعوے دار بھارت شاداں ہے کہ اس نے اپنے سب سے بڑے دشمن کو نشانہ بنایا ہے۔ شہادت کے فوری بعد انسپکٹر جنرل آف مقبوضہ کشمیر پریس کانفرنس کیلئے پہنچتا ہے تو خوشی سے پھولا نہیں سماتا کہ وہ جس ایک شخص کے پیچھے دس سال سے اپنا سب کچھ دائو پر لگائے بیٹھے تھے آج ان کے نشانے پر آیا ہے۔
ہاں ،یہ وہی ہے جس کا نام سن کر لاکھوں ہندو فوج تھرتھرکانپتی تھی… جس کے سر کی قیمت پہلے پولیس نے 10لاکھ مقرر کی تو بعد سی بی آئی نے مزید 10لاکھ کا اعلان کر دیا۔ ہاں، یہ وہی ہے جس نے بھارتی فوج کے بڑے بڑے فوجی کیمپوں اور قافلوں کو تہس نہس کیا ہے۔ ہاں، یہ وہی ہے جو حملے کرواتا ہی نہیںتھا، بلکہ خود میدان میں اتر کر بازوئے شمشیر زن بن کر جوہر دکھاتا ہے…جاتے جاتے بھی ایک میجر اور 4سپاہی مار جاتا ہے۔ ہاں، یہ وہی ہے جس نے ہاں، یہ وہی ہے جس نے ڈیڑھ سال بھارتی فوج کے کیمپ میں کینٹین بوائے بن کر وقت گزارا اور وہیں سے اندر کی خبریں لے کر اسی عرصے میں کتنے حملے کئے تھے۔ ہاں، یہ وہی ہے جس نے 8اکتوبر2015کو مجاہدین کے خلاف سب سے زیادہ اور سب سے خطرناک آپریشن کرنے والے سب سے نامی گرامی انسپکٹر الطاف لیپ ٹاپ کو اس وقت بھون ڈالا تھا، جب وہ اس کی گرفتاری کیلئے سینکڑوں سپاہیوں کے ہمراہ ناکہ لگا کر کھڑا تھا۔ ہاں، یہ وہی ہے جس نے مقبوضہ کشمیر میں ساری جہادی تنظیموں کو باہم جوڑ رکھا تھا۔ بھارتی جنرل بتاتا ہے کہ یہ وہی ہے جس نے اب 20، 20 مجاہدین کے حملہ آور گروپ بنا رکھے اور اب تازہ دم کھیپ کو میدان میں اتارنے والا تھا۔
بھارتی جنرل ہمیشہ کی طر ح الزام لگاتے ہوئے کہنے لگا کہ یہ ملتان کا رہنے والا تھا، 28 سال عمر اور عبدالرحمن نام تھا۔اس ابو قاسم کے لئے انگار وادی میں کتنے دن ہڑتال رہی، کتنے کشمیری زخموں سے چور اور کتنے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے پہنچے۔غائبانہ نمازجنازہ تلواروں کے سائے میں ادا کی جاتی رہی۔ بھارت خوشی سے نہال ہے لیکن اسے ابھی تک اندازہ نہیں کہ ابوقاسم جن صفوں سے آیا ہے، وہاں کا ہر سپاہی ایسا ہی ہے۔ جو اپنی جانوں کا سودا اپنے رب سے کرچکے، بھلا ان میں فرق کیسے ہو سکتا ہے…؟ جونکلتے ہی مرنے اور ہمیشہ کی زندگی پانے کے لئے ہیں، تم انہیں کیسے شکست دے سکتے ہو…؟ کتنے سال، کتنی دہائیاں بیتیں،تمہارے توپوں کے جتنے گولے اور ملکوں کے جتنے وسائل تھے، سب جھونک چکے لیکن انگار وادی کے ابوقاسم ختم نہیں ہو سکے… اور ہاں ،دیکھ لینا! یہ کبھی ختم نہیں ہوں گے اور یہ اپنا حق لے کر رہیں گے۔