پاکستان کی جانب سے ایشیا کپ کے دوران بھارت سے میچ جیتنے کے بعد ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے کشمیریوں پر قاتلانہ حملوں اور بدترین مظالم کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ پہلے میرٹھ یونیورسٹی میں پاکستان کی فتح اور شاہد آفریدی کے چھکوں پر خوشی منانے کے جرم میں کشمیری طلباء پر تشدد کیا گیا’ انہیں ساری سخت سردی میں یونیورسٹی ہاسٹل کے باہر ٹھٹھرنے پر مجبور کیا گیا اور پھر نہ صرف انہیں یونیورسٹی سے بے دخل کر دیا گیا بلکہ انہیں زبردستی پولیس کے پہرے میں گاڑیوں میں ٹھونس کر ممبئی ریلوے اسٹیشن پر لاکر چھوڑ دیا گیا۔
کرایہ دیے بغیر کہاگیا کہ آپ لوگ اپنے گھروں کو چلے جائو’ یوں جس طرح وہ کرایہ کی رقم اکٹھی کر کے بھوکے پیاسے مقبوضہ کشمیر اپنے گھروں کو پہنچے ‘اس کی داستانیں میڈیاکے ذریعے ساری دنیا کے سامنے آچکی ہیں۔ میرٹھ یونیورسٹی کے واقعہ کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ بھارتی ریاست اترپردیش میں گریٹر نوئیڈا کی شاردا یونیورسٹی کے طلباء پر الزام لگایا گیاکہ انہوںنے آفریدی کے چھکے لگانے پر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے گئے تھے۔ شاردا یونیورسٹی کے طلباء کو نعرے لگاتے ہوئے بھی کسی نے نہیں دیکھا تھا صرف اہل علاقہ کی اس درخواست پر کہ یہاں سے پاکستان کے حق میں نعروں میں آوازیں بلند ہوئی ہیں’ چھ طلباء کو زبردستی نکال دیا گیا جو سب کے سب ایم بی اے کے طالب علم تھے۔ بھارت کے مختلف علاقوں میں کشمیری طلباء اور تاجروں کے ساتھ اس نوعیت کے واقعات روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں’ لیکن بھارت کی تہاڑ جیل میں کشمیری قیدیوں پر قاتلانہ حملوں اور بدترین تشدد کا انکشاف ہو اہے جسے پاکستان کی جانب سے بھارت سے میچ جیتنے کے بعد کشمیریوں پر تشدد کی ایک لہر جو پیدا ہوئی ہے ‘ اسی کے تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔
تہاڑ جیل میں چار کشمیری قیدیوں جن کے نام انجینئر محمود بہار، توصیف احمد، احتشام الحق اور محمد رفیق شاہ شامل ہیں پر تہاڑ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ مسٹو گوسوامی ‘ جو سخت گیر ہندو انتہا پسند ہیں اور پہلے بھی مسلمان قیدیوں پر تشدد کروانے کے بیشتر واقعات میں ملوث بتائے جاتے ہیں’ کی ہدایا ت پر قاتلانہ حملے ہوئے ہیں جس سے ان کی پسلیاں ٹوٹ گئیں اور بعد ازاں ان کی حالت تشویشناک ہونے پر ہڈیوں پر پلاسٹر چڑھائے گئے ہیں۔ جیل حکام کی جانب سے پوری کوشش کی گئی کہ ماضی کی طرح یہ واقعہ بھی کسی کے سامنے نہ آسکے لیکن مذکورہ قیدیوںنے کسی طرح اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملوں کی روداد مقبوضہ کشمیر اپنے اہل خانہ تک پہنچا دی جنہوںنے حریت کانفرنس (گ) کی قیادت سے ملاقات کر کے انہیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا ہے۔ تہاڑ جیل میں قاتلانہ حملوں کا نشانہ بننے والے کشمیری قیدیوں کے اہل خانہ نے بتایاکہ زخمی ہونے والے ان چاروں قیدیوں کی طرح وہاں جتنے بھی کشمیری یا مسلمان قیدی موجود ہیں ان کے ساتھ اسی طرح کا بہیمانہ سلوک کیاجاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی زندگیوں کو سخت خطرات لاحق ہیں اور وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔جیل حکام کی طرف سے بعض اوقات انہیں خود تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی جیل میں موجود ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں بربریت کا شکار کیاجاتا ہے۔ حالیہ قاتلانہ حملے بھی ڈپٹی جیل سپرنٹنڈنٹ مسٹر گوسوامی کی ہدایات پر جرائم پیشہ لوگوں کی طرف سے کروائے گئے ہیں۔حریت کانفرنس(گ) مقبوضہ کشمیر کے چیئرمین سید علی گیلانی نے تہاڑ جیل میں کشمیری قیدیوں پر کئے جانے والے ان حملوں پر شدید ردعمل ظاہرکرتے ہوئے عالمی ریڈکراس کمیٹی کے ذمہ داران سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ بھارتی جیلوں میں کشمیریوں قیدیوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات کا فوری نوٹس لیں اور اپنی نوعیت کے اس خطرناک واقعے کو جیل حکام کے ساتھ اٹھائیں۔ اس سے قبل بھی متعدد بار کشمیری نظربندوں پر جان لیوا حملے ہوتے رہے ہیں۔
Kashmiri Prisoners
جن میں کئی بھی بُری طرح سے زخمی بھی ہوئے البتہ چند دن قبل چار کشمیری قیدیوں پرجن قاتلانہ حملوں کا انکشاف ہوا ہے وہ انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں۔ قیدیوں کو حراستی تشدد کا نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہے جس کا کوئی آئینی یا اخلاقی جواز نہیں ہے۔اس وقت پورے بھارت میں جیلوں کے اندر اور جیلوں کے باہر کشمیریوں کے خلاف دشمنی اور عناد کی ایک لہر چلی ہوئی ہے اور انہیں ہر جگہ ظلم اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پچھلے صرف ایک مہینے میں مختلف ریاستوں میں اس قسم کے آٹھ سے دس تک واقعات پیش آئے ہیں’جب کشمیریوں پر قاتلانہ حملے کئے گئے ہیں مگر تہاڑ جیل کے نئے واقعہ سے کشمیری بھارت میں ہر جگہ نسبتاً زیادہ خوف و عدم تحفظ کے شکار ہوگئے ہیں اور ان تمام کشمیری قیدیوں کی سلامتی پر ایک بڑا سوالیہ کھڑا کیا ہے’ جو وادی کشمیر سے باہر کی جیلوں میں پابند سلاسل رکھے گئے ہیں۔
تہاڑ جیل کے تازہ واقعہ سے قبل بھی یہ باتیں منظر عام پر آچکی ہیں کہ بھارتی جیلوں میں جس نوعیت کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں اس لحاظ سے یہ جیلیں ابو غریب اور گوانتاناموبے سے کم نہیں ہیں۔خاص طور پر وہ کشمیری جو تحریک آزادی کشمیر میں بھرپور انداز میں حصہ لیتے ہیںاور حریت کانفرنس (گ) وغیرہ کے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں انہیں خصوصی طور پر ہدف بنایا جاتا ہے اور پھر یا تو انہیں فرضی جھڑپوںمیں شہید کر دیا جاتا ہے۔ جھوٹے مقدمات قائم کر کے تاحیات عمر قید کی سزائیں سنائی جاتی ہیں یا پھرزبردستی اغواء کر کے جیلوں میںسڑنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور کئی کئی برس تک انہیں عدالتوں میں پیش ہی نہیں کیا جاتا۔
مقبوضہ جموں اور بھارت کی تمام جیلیں میں ڈھائے جانے والے مظالم سے ہر کشمیری خوفزدہ ہے اوروہاں کے حالات کا تصور کر کے ہی خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ کشمیری رہنما مسرت عالم بھٹ، مسلم لیگ مقبوضہ کشمیر کے قائد ڈاکٹر محمد قاسم فکتوسمیت وہ تمام کشمیری حریت پسندرہنما جو جیلوں میں بند ہیں انہیں مناسب غذانہیں دی جاتی بلکہ یہ انکشافات بھی منظر عام پر آچکی ہیں کہ ناقص خورا ک اور مسلسل سلو پوائزننگ کی وجہ سے وہ انتہائی خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔حریت رہنمائوں کے مطابق کسی کی بینائی چلی گئی ہے تو کسی کے گردوں اور جگر نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ کشمیریوں کے سخت احتجاج کے باوجود انہیں علاج معالجہ کی سہولیات بھی فراہم نہیں کی جارہیں۔ اسی طر ح کوٹ بھلوال جیل جموںمیں انتہائی مجرمانہ ذہنیت رکھنے والی جیل سپرنٹنڈنٹ رجنی سہگل کے مظالم بھی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے ذریعہ منظرعام پر آچکے ہیں کہ کس طرح مسلمان قیدیوں سے قرآن پاک چھین لئے جاتے ہیں۔ ان کے قرآن پاک کی تلاوت پر پابندی ہے۔ انہیں نمازوں کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی جاتی اور اسلامی احکامات کی پیروی سے روک کر زبردستی پوجا پاٹ اور بھجن گانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مقبوضہ جموں اور بھارتی جیلوں سے رہاہونے والے قیدیوں کی داستانیں سنیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ پونچھ سے تعلق رکھنے والے قیدی حنیف اور بلال جو تہاڑ جیل سے ہی رہاہوئے ہیں’ ان کی گفتگو بھی میڈیا میں شائع ہوئی ہے جس میں انہوںنے کہا ہے کہ بھارتی جیلوں کی انتظامیہ کشمیری قیدیوں سے تاوان وصول کرنے کیلئے بھی جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھاجاتا ہے۔سرکردہ کشمیری حریت پسندلیڈر شیخ عبدالعزیز کو جب پندرہ سال بعد رہا کیا گیا تو انہوںنے بھی بھارتی جیلوں کے انہی مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان سمیت تیس کشمیری قیدیوں کو جب جودھپور جیل منتقل کیا گیا تو ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی گئی اور پھر ہاتھ و ٹانگیں باندھ کر برہنہ کرکے بھارت کے حق میں اور پاکستان کے خلاف نعرے لگانے پر مجبور کیا جاتا رہا۔
Supreme Court India
اسی طرح ہر کشمیری کی نگرانی کیلئے چھ گارڈز تعینات کئے جاتے اور جانوروں کا ساسلوک کیاجاتا تھا۔بہرحال مقبوضہ جموں اور بھارتی جیلوں میں اس طرح کے واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ حریت کانفرنس (گ) کا یہ کہنا کہ جب بھارتی سپریم کورٹ کی یہ رولنگ موجود ہے کہ کشمیری قیدیوں کو مقبوضہ کشمیر منتقل کیاجائے اور یہ کہ قیدیوں کو ان کے گھروں کے نزدیک ترین جیلوں میں رکھا جائے تو پھر اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی ادارے آخر کیوں اس مسئلہ پر خاموش ہیں اور کیوں بھارت سرکار کی اس دہشت گردی کا نوٹس نہیں لیا جاتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس مسئلہ پر خاموشی سے خود ان عالمی اداروں کا وقار مجروح ہورہا ہے اور پوری دنیا میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کیلئے انہوںنے الگ الگ رویے اپنا رکھے ہیں۔