واشنگٹن (جیوڈیسک) جنوبی امریکا کے کئی شہروں میں کشمیری امریکیوں کے بھرپور مظاہرے جاری ہیں۔ جن میں ڈیلس، ہیویسٹن، نیویارک، واشنگٹن ڈی سی اور سان فرانسسیکو جیسے بڑے شہر بھی شامل ہیں۔ ان مظاہرین نے کشمیریوں کے حق ارادیت کے لیے آواز اٹھائی۔
ان مظاہروں میں شامل کشمیری، بھارت کے آرٹیکل 370 کی دفعات کو ختم کرنے، فوج کی ایک بھاری نفری کشمیر میں بھیجنے اور کشمیریوں پر کریک ڈان کرنے پر احتجاج کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ہفتے کی شام ڈیلس میں ہوئے ایک ایسے ہی مظاہرے میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے پر کشمیریوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
اس مظاہرے میں موجود کشمیری اپنے عزیزوں سے رابطہ ختم ہوجانے پر بھی تشویش کا شکار تھے۔ شیخ عبداللہ کی نواسی پروفیسر ڈاکٹر نائلہ علی خان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے چھ روز سے ان کا اپنے خاندان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔
کشمیر کا ایک ممتاز سیاسی خاندان ہونے کی وجہ سے ان کے خاندان کے افراد اس وقت گھروں پر نظر بند ہیں۔ آرٹیکل 370 کی دفعات کو ختم کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا، بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ قدم سیاسی اور جمہوری عمل کو کمزور کرے گا۔
مظاہرے میں موجود سینیئر کشمیری رہنما راجہ مظفر نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا، کشمیری کوئی بھیڑ بکریوں کا ریوڑ نہیں ہے اور نہ کشمیر صرف زمین کے ایک ٹکڑے کا تنازعہ ہے کہ آپ کشمیری سیاسی قیادت کو شامل کیے بغیر اس کے مستقبل کا فیصلہ کر لیں۔
کشمیری امریکی سہلا اشہائی کا کہنا تھا کہ وہ کشمیر میں موجود لوگوں کا حوصلہ بڑھانے یہاں آئی ہیں۔ وہ یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ ہم مشکل کے اس وقت میں اپنے لوگوں کو بھولے نہیں ہیں اور ہم کشمیریوں کا پیغام پوری دنیا میں پہنچایں گے۔
اس مظاہرے کے شرکا کا کہنا تھا کہ بھارت کا یہ قدم انسانی حقوق اور قوانین کو پامال کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں وہ امریکی کانگریس سے ملاقات کریں گے تاکہ اس مسئلے کو امریکا کے سیاسی ایوانوں میں اٹھایا جئے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اس خبر کو سختی سے رد کیا تھا کہ بھارت نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے سے قبل واشنگٹن حکومت سے مشاورت کی تھی یا اسے بتایا تھا۔ اس کے علاوہ امریکی صدر ڈولڈ ٹرمپ اس معاملے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کر چکے ہیں۔