کشمیر (جیوڈیسک) اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشن کی کشمیر میں غیر مشروط رسائی کے سوال پر کشمیری نمائندوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں اور اسے اخلاقی برتری حاصل ہو گی۔
یہ رپورٹ مئی سن 2018 سے اپریل سن 2019 تک کے حالات و واقعات کا احاطہ کرتی ہے اور جون ۲۰۱۸ میں جاری کی جانے والی پہلی رپورٹ کا تسلسل ہے۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ افسپاک (آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ-۱۹۹۰ ) کو فورا ختم کرے اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے مرتکب سیکورٹی اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے وفاقی حکومت سے اجازت لینے کی شرط فورا واپس لی جائے، سن 2014 کے بعد سے ہونے والی تمام تر شہری ہلاکتوں کے آزادانہ تحقیقات کرئی جائیں، کشمیری خواتین پر ہونے والے جنسی حملوں کی تحقیقات کرائی جائیں اور مجرموں کو سزا دی جائے، پیلٹ گن کا استعمال فوری طور پر ختم کیا جائے اور سیکورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کے استعمال کو عالمی قانون کے معیارات کے مطابق لایا جائے، پبلک سیفٹی ایکٹ-1968 میں ترامیم کی جائیں، اب تک دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں کی آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں، بھارت شہریوں کے جبری گمشدگی اور تشدد اور غیر قانونی سزاؤں کے خلاف عالمی دستاویزات پر دستخط کرے اور عالمی قانون کے مطابق کمشیریوں کے حق خود ارادیت کا مکمل احترام کرے۔
آزاد کشمیراور گلگت بلستستان کے حوالے سے حکومت پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ، ‘دہشت گردی مخالف قوانین کے غلط استعمال کو ترک کرتے ہوئے ان میں عالمی معیارات کے مطابق ترامیم کرے، آزاد کشمیر کے عبوری آئین کی ان شقوں میں ترامیم کی جائیں جو شہریوں کے حق آذادی رائے اور حق تنظیم سازی پر قدغنیں عائد کرتی ہیں، اظہار رائے کی پاداش میں گرفتار صحافیوں، سیاسی ورکروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو رہا کیا جائے، مذہبی اقلیتوں سے امتیازی سلوک ختم کیا جائے، پاکستان جبری گمشدگیوں اور غیر انسانی سزاؤں اور تشدد کے خلاف کنونشنوں پر دستخط کرے، جبری گمشدگیوں کے خلاف قائم تحقیقاتی کمشن کو مکمل بااختیار کرے اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا مکمل احترام کرے۔‘
یہ رپورٹ لشکر طیبہ، جیش محمد، حزب المجاہدین اور حرکت المجاہدین کی مبینہ کارروائیوں کا ذکر کرتی ہے اور ایف اے ٹی ایف کا حوالہ دیتے ہوئے داعش، القاعدہ، جماعت الدعوہ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن، حقانی نیٹ ورک اور طالبان سے منسلک افراد کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے پاکستان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنی، ‘تزویراتی خامیوں‘ کو دور کرے اور اپنے ایکشن پلان پر مکمل عمل درامد کرے۔‘
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے، جموں کشمیر سول سوسائٹی اتحاد کے سربراہ اور جبری گمشدگیوں کے خلاف ایشیائی فیڈریشن کے صدر، خرم پرویز کا کہنا تھا کہ ‘اگر بھارت کہتا ہے کہ یہ رپورٹ حقائق کے برخلاف اور جانبدار ہے تو اسے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کشمن کو کشمیر میں رسائی دینی چاہیے تاکہ سچ سامنے آ سکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ، ‘اس رپورٹ نے کشمیریوں کےمسائل اور انکی جدوجہد کو آواز دی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر ہو گا وگرنہ کشمیریوں کے انسانی حقوق کو عموما نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔‘
جموں و کشمیر کے معروف اخبار کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر، انورادھا بھسین نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘یہ رپورٹ حقیقت کی عکاسی کرتی ہے اور بہت متوازن ہے کیونکہ اس میں دہشت گردی کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر بھارت اپنی جمہوریت اور آئین کی روح کو بچانا چاہتا ہے تو اسے کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو ختم کرنا ہو گا۔‘‘
حالیہ انتخابات کے تحت یورپی پارلیمنٹ میں منتخب ہونے والے واحد کشمیری نژاد رکن شفیق محمد نے بات کرتے ہوئے تجارتی تعلقات کو انسانی حقوق کے احترام سے منسلک کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس رپورٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا، ‘میں اس رپورٹ کا خیرمقدم کرتا ہوں اور اس تجویز کو سراہتا ہوں کہ کشمیر کے دونوں حصوں میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشن کو غیر مشروط رسائی حاصل ہونی چایے۔ کشمیر کونسل ای یو کے سربراہ علی رضا سید نے بھی شفیق محمد کے موقف کی حمایت کی۔