کشمیری طلباء بھارتی انتہا پسندوں کے نرغوں میں

Hindu Extremists Attack Kashmiri Students

Hindu Extremists Attack Kashmiri Students

تحریر: آصف خورشید رانا
بھارت کی انتہا پسندہندو جماعتوں کی مسلم دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مگر مودی سرکار کے برسر اقتدار آتے ہی اس دشمنی کی اس آگ نے تعلیمی اداروںکو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔بھارتی جنتا پارٹی نے انتخابات پاکستان اور مسلم دشمنی کی بنیاد پر جیتا ۔اپنی انتخابی مہم میں واضح طور پر پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف سخت گیر پالیسیوں کو عوام کے سامنے رکھا گیا جس کی وجہ سے بھارتی جنتا پارٹی کی وہ حلیف جماعتیں جو انتہا پسندی میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں انہوں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا اور گلی گلی قریہ قریہ مسلمانوں کو دہشت ذدہ کرنے کی مہم جاری رکھی ۔مظفر نگر کا واقعہ بے جی پی کی انتخابی مہم کا پہلا بدترین اور بھیانک ترین واقعہ تھا جس میں ہزاروں مسلمانوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں پناہ لینا پڑی۔

ان کیمپوں میں موجود خواتین ، بوڑھوں اور بچوں کے چہرے پر خوف ، دہشت کے اثرات دیکھ کر حالات کی سنگینی کا اندازاہ لگایا جا سکتا تھا ۔ کتنی ہی بستیاں جلا دی گئیں اور کتنے ہی گھر مکینوں سمیت راکھ بنا دیے گئے ، نوجوان یا تو قتل کر دیے گئے یا تشدد کے ذریعے ان کو معذور کرنے کی کوشش کی گئی ، خواتین اور بچیوں کی عصمت دری کے دردناک واقعات ہوئے لیکن سیکولر بھارت کی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی یا جہاں ضرورت محسوس ہوئی بلوائیوں کو مدد فراہم کی گئی ۔ بی جے پی کے برسر اقتدار میں آتے ہیں گویا انہیں ریاستی سرپرستی میں مسلم شناخت ختم کرنے کے لیے کھلی چھٹی دے دی گئی ۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کے جاری اعدادوشمار کے مطابق نریندرا مودی کے اقتدار کا ایک سال مکمل ہونے پر دو سے زائد مرتبہ بھارتی جنتا پارٹی کے رہنمائوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کیں جس کی وجہ سے230زائد واقعات درج کیے گئے جن میں انتہا پسندوں نے مسلمانوں پر حملے کیے ۔یہی نہیں بلکہ عیسائی کمیونٹی بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکی اور دو سو سے زائد مرتبہ ان کی خواتین کے ساتھ ذیادتی کی کوشش اور چرچ جلانے کے واقعات ہوئے ۔عالمی سطح پر بھارت ایک سیکو لر ریاست کے طور پر اپنی پہچان بنا رہا ہے لیکن دوسری طرف بھارت میں موجود اقلیتیں بشمول مسلمان ہندو انتہا پسندوں کے رحم و کرم پر ہیں جن پر ظلم و ذیادتی کے لیے سرکاری سرپرست حاصل ہے۔

بھارت کے تعلیمی اداروں میں موجود مسلم طلباء بھی ہندو انتہا پسند تنظیموں کے کارکنوں سے محفوظ نہیں ہیں تاہم کشمیر کی تحریک آزادی میں تیزی آنے کے بعد کشمیری طلباء کو خاص طور پر ہدف کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ راجھستا ن کے شہر چتوڑ گڑھ میں انتہا پسند تنظیموں نے ایک ہوسٹل میں مقیم کشمیری طلباء پر الزام لگایا کہ انہوں نے گائے کا گوشت کھایا ۔ سوشل میڈیا پر یہ پیغام بڑی تیزی سے پھیلایا گیا کہ کشمیری طلباء گائے کا گوشت پکا رہے ہیں تھوڑی ہی دیر میں جہاں جہاں یہ پیغام پہنچا انتہا پسند ہندوئوں کی ایک بڑی تعدا د اکٹھا ہونا شروع ہو گئی اور ڈنڈوں پتھروں سے لیس ایک گروہ نے نعرے لگاتے ہوئے ان کشمیری طلباء پر حملہ کر دیا ان کے کمروں میں توڑ پھوڑ کی اور پتھرائو بھی کیا ، مقامی پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی بجائے انہی چار طلباء کو گرفتار کر لیا جن پر حملہ ہوا۔

Meat

Meat

مقامی تھانے کے ایس ایچ او لبھو رام نے میڈیا کو گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ گوشت کے نمونے ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری بھیج دیے گئے ہیں اگر یہ ثابت ہوا کہ ان طلباء نے گوشت کھایا ہے تو انہیں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا جائے گا ۔دون دن بعد رپورٹ آئی کہ یہ گوشت گائے کا نہیں تھا تب ان طلباء کو دو دن بعد رہائی ملی لیکن حملہ آوروں کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا گیانہ ان کو گرفتار کرنے کی کوئی کوشش کی گئی ۔ کشمیری طلباء کو صرف ہندو انتہاپسند تنظیمیں ہی نہیں بلکہ سرکاری اداروں میں بھی تعصب کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے ۔ دو ماہ پہلے وزیراعظم سکالر شپ سکیم کے تحت بھارتی ریاست ہریانہ میں تعلیم حاصل کرنے والے چالیس طلباء کو بغیر کوئی نوٹس جاری کیے کالج چھوڑنے کا حکم جاری کیا گیا ۔کالج انتطامیہ نے اچانک فیسوں میں اضافہ کافیصلہ کیاور ان طلباء کو مہلت دیے بغیر کالج سے بیدخل کر دیا۔

راجھستان میں ہی میوار یونیورسٹی میں ورلڈ کپ کے دوران ویسٹ انڈیز کی فتح پر نعرے لگانے کے ”جرم” میں بھارتی طلباء نے کشمیری طلباء پر حملہ کر دیا اور گھیرے میں لے کر انہیں تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ جس پر یونیورسٹی انتظامیہ نے الٹا انہی طلباء کو گرفتار کروا دیا اور جس ہاسٹل وارڈن نے انہیں ہندو انتہا پسندوں سے بچانے کی کوشش کی تھی اسے بھی گرفتار کروا دیا ۔ بھارت میں تو کشمیری انتہا پسند ہندوئوں کے رحم و کرم پر ہیں لیکن کشمیر میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے ۔ کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں واقع نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی جس میں پچاس فیصد بیرونی طلباء زیر تعلیم ہیں جبکہ باقی پچاس فیصدنشستیں کشمیر کے ہندو اور مسلم طلباء میں تقسیم ہیں اس لحاظ سے اس ادارے میں عملی طور مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا ۔بھارت میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے میچ کے دوران اس ادارے میں بھی اس وقت جھگڑا پیدا ہو گیا جب مقامی طلباء نے ویسٹ انڈیز ٹیم کی جیت پر خوشی کااظہار کیا۔

کشمیری مسلم طلباء کی یہ خوشی سپورٹ سپرٹ سے عاری ہندو طلباء کو ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے کشمیریوں کے خلاف نعرے بازی شروع کر دیے۔نعروں کی آواز سن کر دیگر ہندو طلباء بھی اکٹھے ہونے شروع ہو گئے اور جونہی بیرونی طلباء کی تعدا دمقامی طلباء سے ذیادہ ہوئی یہ نعرے بازی مار پیٹ میں بدل گئی ۔ صرف یہی نہیں ہندو طلباء مسلم طلباء کو مجبور کرتے رہے کہ” بھارت ماتا کی جے ” کے نعرے لگائیں جس کا انہوں نے صاف انکار کر دیا کیوںکہ مسلمان متفقہ طور پر اس نعرے کو اپنے عقیدے کے خلاف سمجھتے ہیں ۔اس جلتی پرتیل چھڑکنے کا کام بھارت میڈیا نے کیا جنہوں نے ہندو طلباء کو معصوم ٹھہرا کر یہ کوشش کی کہ کشمیریوں نے ان کو تشدد کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کے مختلف علاقوں میں موجود کشمیری طلباء کے خلاف بھی فضاء ہموار ہونے لگی۔

Hindu Extremists in Kashmiri students

Hindu Extremists in Kashmiri students

اس واقعی کے ٹھیک چار دن بعد پولیس کی جانب سے کشمیریوں کو زبردستی بھارتی پرچم لہرانے پر مجبور کیا جانے لگا جس پر کشمیری طلباء بھارتی پرچم لہرانے سے صاف انکار کر دیا جس کے باعث پولیس نے طلباء پر لاٹھی چارج شروع کر دیا اور اس واقعہ میں کئی طلباء زخمی ہو گئے لیکن اس کے باوجود پولیس پر پتھرائوکرنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں مقدمات درج کر لیے گئے ۔دوسری جانب بھارت کے مختلف شہروں میں بھی کشمیری طلباء کے خلاف پر تشدد کاروائیوں کے مختلف واقعات نوٹ کیے گئے ۔جودھ پور کے ایک ڈینٹل کالج میں30 سے زائد ہندو طلباء کے گروہ نے جن کے پاس چاقو ، لوہے کے راڈ اور ڈنڈے موجود تھے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے کشمیری طلباء پر حملہ کر دیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جس سے کئی طلباء ذخمی ہوگئے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق صرف فروری میں کشمیری طلباء کے خلاف حملوں کے 30واقعات ہوئے ۔ کشمیر ی ابھی جس واقعہ پر سراپا احتجاج ہیں وہ ہندواڑہ میں بھارتی فوجی کی کشمیر ی طالبہ کے ساتھ دست درازی کی کوشش تھی جس پر کشمیر ی عوام میں سخت اشتعال پیدا ہو گیا لیکن دوسری طرف بھارتی فوجیوں نے احتجاجی مظاہرہ کرنے والے افراد پر گولیاں چلا دیں جس کے نتیجے میں دو نوجوان طالب علم شہید ہو گئے جس پر مشتعل ہجوم نے فوجی بینکر کو آگ لگا دی اور بھارتی فوجیوں پر پتھرائوبھی کیا جس پر بھارتی فوج نے پھر گولی کا سہارا لیا اور اس تصادم میں مزید تین نوجوان شدید زخمی ہوگئے جبکہ عام لوگوں کی بھی بڑی تعدا د ذخمی ہوئی بھارت میڈیا کے مطابق گزشتہ ایک ہفتہ سے جاری اس کشیدگی میں اب تک پانچ نوجوان کشمیری طلباء جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ زخمی ہونے والے طلباء کی تعداد کہیں ذیادہ ہے ۔یہ مظاہرے اس وقت کشمیر بھر میں پھیل چکے ہیں اور آزادی کی یہ تحریک ایک نیا رخ اختیا ر کر چکی ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں کو بھی آزادانہ رپورٹنگ کی اجازت نہیں ہے ۔ انٹر نیٹ تک رسائی کی سہولت معطل ہے ، جگہ جگہ موجود فوج اور پولیس کی چیک پوسٹوں کی وجہ سے کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود کشمیری نہ جھکے ہیں نہ تھکے ہیں وہ اپنی جدو جہد آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں ان حالات میں پاکستان حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے کشمیری پاکستان کو اپنا سب سے بڑا وکیل سمجھتے ہیں اور پاکستان کو ہی آزادی کا بیس کیمپ مانتے ہیں۔ کشمیری طلباء نے ہر اہم موقع پر بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں پاکستانی پرچم لہرا کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔کشمیری طلباء کے لیے بھارت مسلسل غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ردعمل نظر نہیں آ رہا ۔ ان حالات میں ہندو طلباء کے حصار سے بچانا ، ان طلباء کے لیے پاکستان کے تعلیمی اداروں کے دروازے کھولنا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو عالمی سطح پر ہندو انتہا پسندوں کی ریشہ دوانیاں کو کھل کر بیان کرنا چاہیے۔

Asif Khurshid Rana

Asif Khurshid Rana

تحریر: آصف خورشید رانا