تحریر : محمد اشفاق راجا مفکرین اگرچہ کلی طور پر آج تک “لفظ قوم” کی حتمی تعریف پر متفق نہیں ہو سکے، لیکن ان کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ” اگر انسانوں کا ایسا گروہ جن کے مقاصد یا منزل مشترک ہو اور وہ ایک ہی سر زمین پر ایک مخصوص مدت سے رہائش پذیر ہوں، ایک قوم کہلاتے ہیں ”۔ دوسرے ماہرین کا کہنا ہے: ” ایک ہی طرح کے مذہبی خیالات کے حامل اور وہ اس مذہب پر عملدرآمد بھی کرتے ہوں، ایک قوم کہلاتے ہیں ”۔۔۔ لیکن ایک ہی وطن میں رہنے والوں کو بھی قوم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بر صغیر کے دونوں بڑے مکاتب فکر، اختلاف کے باوجود قوم کی جن تعریفوں پر متفق ہیں ،کشمیری اس لحاظ سے ایک مکمل قوم ہیں۔ یاد رہے کہ جدید سیاسیات کے مقالوں اور کتب میں ماہرین نے انسانوں کے ہر ایسے گروہ کے لئے قوم کا لفظ استعمال کیا ہے جو ایک مخصوص سرحدی دائرے کے اندر رہتے ہوں اور مفادات مشترک ہوں یا ان کی زندگی ایک ہی سمت میں چلتی ہو۔ اس تمہید کا مطلب کشمیریوں کے متعلق پائے جانے والے ان شکوک و شبہات کو دور کرنا ہے، جن کے تحت ان کو علیحدگی پسند کہا یا لکھا جاتا ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ جو روز اول سے کشمیریوں کے متعلق تعصب سے کام لے رہے ہیں، تسلسل سے کشمیریوں کو علیحدگی پسند لکھتے آرہے ہیں جو کشمیر کی تاریخ اور تحریک سے لاعلمی کاثبوت ہے۔
کشمیر اور اس کے باشندوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ ہندوستان کی۔ اس کی ثقافت نے کئی ارتقائی منازل طے کی ہیں اور موجودہ صورت میں ہمارے سامنے ہے۔کشمیر ہر حوالے سے ایک مکمل ملک ہے اور ریاست کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔کشمیر کی سر زمین کے اصل مالک بھی کشمیری ہیں جو صدیوں سے یہاں آباد ہیں۔ وہاں پر نہ تو کوئی انقلاب آیا ہے اور نہ ہی وہاں کا علاقہ اور لوگ تبدیل ہوئے ہیں۔ ان کو کسی سے الگ خطہ زمین مانگنے کی ضرورت نہیں۔”کشمیر” کشمیریوں کا گھر ہے، جس پرمکار اور عیاربھارتی غنڈوں نے بندوق کے زور پر جبراً قبضہ کر رکھا ہے۔ کشمیری عوام گزشتہ70 سال سے احتجاج کر رہے ہیں، جس کے دوران ان کو بھاری اور ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔انہوں نے کشمیر سے بھارتی افواج کا قبضہ ختم کرانے کے لئے لاکھوں کشمیری نوجوانوں کی قربانیاں دی ہیں، ان میں اکثریت ایسے نوجوانوں کی تھی جو اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے۔
بھارتی قبضے کے خلاف احتجاج کے دوران 75ہزار سے زائد معصوم پھول جیسے بچوں کو سنگینوں پر چڑھایا گیا اور 50ہزار خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ بے شمار نوجوانوں کو ٹارچر سیلوں میں بد ترین تشدد کے ذریعے شہید کیا گیا۔ لاتعداد افراد معذورں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ہزاروں خواتین کی آبرو ریزی کی گئی۔ کشمیری ظلم تو برداشت کر رہے ہیں لیکن وہ ایک ایسے دن کی امید لگائے ہوئے ہیں، جب وہ بھی بھارتی تسلط سے آزاد ہوں گے اور اپنے مذہب اور کلچر کے مطابق زندگی گزار یں گے۔بھارتی فوجی درندوں سے ان مظالم کے متعلق باز پرس کرنے والا کوئی ادارہ ہے اور نہ ہی کوئی طاقت۔آج تک کسی فوجی یا نیم سرکاری اہل کار کو سزا نہیں دی گئی۔
Kashmir Violence
ظلم سہتے سہتے کشمیریوں کی تیسری نسل جوان ہو چکی ہے۔ ہزاروں مائیں اپنے جگر گوشوں کی گھر واپسی کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے چلی گئیں ، اسی طرح لاکھوں بچے اپنے باپ، چچا، ماموں اور دیگر رشتہ داروں کے واپس آنے کی آس میں جوان ہوچکے ہیں۔20ہزار سے زیادہ خواتین نے اپنے سہاگ غاصبانہ قبضے کے خلاف قربان کئے۔اربوں روپے کی جائیدادیں ، مکانات، دوکانیں اور دیگر اثاثے نذر آتش ہوئے، لیکن کسی عالمی طاقت کے ضمیرمیں خلش تک نہ ہوئی۔ آج یہ سہمے ہوئے معصوم اور پھول جیسے بچے جب سوال کرتے ہیں کہ ان کے گھروں میں بھارتی درندے داخل کیوں ہوتے ہیں ؟ ان کے باپ، بھائی اور رشتہ داروں کو کیوں پکڑ کر لے جاتے ہیں ؟ ان کا جرم کیا ہے؟ ان سوالوں کا جواب نہ پا کر اور اپنے بڑوں کو خاموش دیکھ کر بچوں کی نفسیات بری طرح متاثر ہوتی ہے ، لیکن ماں باپ ان بچوں کے سامنے جس کرب اور ذہنی کوفت سے گزرتے ہیں ،جس اذیت ناک صورت حال کا سامنا کرتے ہیں،اس کا اندازہ صرف وہی کر سکتے ہیں ظلم کی یہ داستان ایک دو نہیں بلکہ سات عشروں پر محیط ہے۔امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر کے سیاح اور کوہ پیما کشمیر کو جنت ارضی تو قرار دیتے ہیں، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انہوں نے اپنی اپنی حکومتوں پر بھارت کے ظلم و استبداد سے کشمیریوں کو نجات دلانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے پر زور دیا ہو۔
مسئلہ کشمیر کے حل میں کسی بڑی طاقت کے مداخلت نہ کرنے اور اقوام متحدہ کی طرف سے افسوسناک خاموشی نے کشمیریوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ یہ جنگ ان کی اپنی جنگ ہے اور انہوں نے اسے تنہا ہی لڑنا ہے۔ بین الاقوامی برادری کے رویے سے کشمیری نالاں ہیں۔یہ ناراضگی کسی بڑے ناخوشگوار واقعہ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کرتے ہوئے کشمیریوں کو ان کا حق دے، جسے وہ خود تسلیم کر چکا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کو مجبور کرے کہ وہ کشمیر سے اپنی فوجیں نکال لے۔ اگر وہ ایسانہیں کرتا تو اسے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا ملک قرار دے کر اس کے ساتھ کئے گئے تمام معاہدے ختم کر دے ،اس کو حاصل تمام سہولتیں یکسر موقوف کر دے، بین الاقوامی مالیاتی اور صحت عامہ کے عالمی اداروں کی طرف سے ملنے والی تمام امداد اور سہولتوں کو فوراََ روک لیا جائے۔ ظالم کو ظلم سے نہ روکنا اس کا ساتھ دینے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ اگر عالمی طاقتیں چاہیں تو بھارت کو کشمیر سے دست بردار کرا سکتی ہیں ، وہاں جاری ظلم و تشدد ، بربریت ، سفاکیت ،چنگیزیت کو ختم کرا سکتی ہیں،لیکن ایسا نہ کر کے وہ بھی اس ظلم کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ دنیا کی اس مظلوم ترین قوم کا ساتھ نہ دینا ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس” کے قانون کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے، جس کی اب قوموں کی زندگیوں میں کوئی گنجائش نہیں۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور اقوام عالم کو کشمیر میں بہنے والا خون کیوں نظر نہیں آتا ،جہاں اپنے حقوق مانگنے پر گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ انہیں ظلم وتشدد، بھارتی فوجی درندوں کی دہشت گردی اور جاہلیت نظر کیوں نہیں آتی؟ کشمیر نے اگلتے ہوئے آتش فشاں کا روپ دھار لیا ہے۔فی الوقت کشمیریوں ظلم ڈھائے جا رہے ہیں ، بچوں کو دتشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے،عورتوں کی اجتماعی آبروریزی کی جا رہی ہے، نوجوانوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے،مگر مافوق الفطرت کشمیری قوم نے عزم کر رکھا ہے کہ وہ ہر قیمت پر ”حق خودارادیت” حاصل کر کے رہیں گے۔ یاد رہے بھارتی درندے جس قدر کشمیریوں پر ظلم وستم کرتے ہیں۔اسی قدر جذبہ آزادی اور شوق شہادت بڑھتا جا رہا ہے اور” کشمیر بنے گا ،پاکستان” کا نعرہ بلند ہو رہا ہے۔