تحریر : علی عمران شاہین ماہ جون کے آخر اور ماہ جولائی کے آغاز میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پہلے امریکہ اور پھر اسرائیل کا دورہ کیا۔ مودی کے امریکہ پہنچنے سے پہلے واشنگٹن نے مقبوضہ کشمیر کے مرد مجاہد، متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین اور حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر محمد یوسف شاہ المعروف سید صلاح الدین کو ”عالمی دہشت گرد” قرار دیا تو اسرائیل میں وہاں کے وزیراعظم نیتن یاہو نے کشمیریوں کی ہر دلعزیز جہادی تنظیم لشکر طیبہ کو حماس جیسا اور مشترکہ دشمن قرار دے کر مودی کو خوب خوش کرنے کی کوشش کی۔ دونوں اعلانات پر مودی اور اس کی ریاست نے خوب بغلیں بجائیں کہ انہیں بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ حزب المجاہدین کو اگرچہ اقوام متحدہ نے طویل عرصہ سے ”دہشت گرد تنظیم” قرار دے رکھا ہے لیکن ابھی تک امریکہ اور یورپی طاقتوں نے یہ اقدام نہیں اٹھایا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنما ہوں یا عوام آج تک مغربی طاقتوں اور عالمی اداروں سے انصاف کی اپیلیں کرتے رہے ہیں کہ وہ انہیں ان کا حق دلائیں۔
حزب المجاہدین کے سربراہ جناب سید صلاح الدین نے تو 1981ء میں باقاعدہ طور پر انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن ان انتخابات میں جس طرح بدترین دھاندلی کا کھیل کھیلا گیا، اس سے بددل اور متنفر ہو کر تو کشمیریوں نے بھارت سے آزادی کیلئے ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا کہ بھارت تو انہیں اپنے ساتھ رکھ کر بھی ان کو معمولی مرضی کا فیصلہ اور عمل کرنے نہیں دیتا۔ انہی انتخابات کے نتائج کے بعد حالیہ جہادی تحریک کا آغاز ہوا تھا اور سید صلاح الدین بھارتی جیلیں کاٹ کر آزاد کشمیر آئے تھے اور یہیں سے اپنے پیدائشی اور قانونی حق کے حصول کے لئے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کر دیں۔ امریکہ نے انہیں ”عالمی دہشت گرد” قرار دے ڈالا حالانکہ حزب المجاہدین ہو یا اس کے سالار اعلیٰ، انہوں نے آج تک سوائے مقبوضہ کشمیر کے کہیں عسکری جدوجہد تو کجا سیاسی جدوجہد کا بھی اعلان نہیں کیا۔
انہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو کشمیر تک ہی محدود رکھا اور ان کے تمام رفقاء ہوں یا ان کی صفوں میں لڑنے اور شہادتیں پانے والے برہان مظفر وانی جیسے سینکڑوں ہزاروں نوجوان، سبھی مقبوضہ کشمیر کے باسی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے کسی ایک نوجوان نے کبھی اپنے خطے سے باہر نکل کر دنیا کے کسی ملک یا علاقے میں کبھی عسکری جدوجہد نہیں کی کیونکہ وہ تو خود مظلوم ترین اقوام میں سے ہیں اور انہیں خود دوسری دنیا کی مدد کی ضرورت ہے۔
کشمیریوں نے تو ہمیشہ اپنے خطے کی آزادی اور اپنے بنیادی حق کے حصول کے لئے اپنی نسلیں تک قربان کر ڈالی ہیں۔ انہیں امریکہ کی جانب سے یوں عالمی دہشت گرد قرار دے دینا اتنا بڑا ظلم ہے کہ جس کی مثال دینا مشکل ہے۔ یہی صورتحال لشکر طیبہ اور حماس کی ہے۔ لشکر طیبہ، حزب المجاہدین کی طرح مقامی کشمیریوں کی ہی تنظیم ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد جب بیسیوں کشمیری نوجوانوں نے تعلیمی اداروں اور گھر بار کو خیرباد کہہ کر عسکری راہ پر قدم رکھے تو ان کی بڑی تعداد نے لشکر طیبہ میں شمولیت اختیار کی۔
بھارتی فوج سے چند ماہ پہلے 60گھنٹے تک تن تنہا مقابلہ کر کے اور کیمیائی ہتھیاروں سے شہادت پانے والا نوجوان ماجد زرگر ہو یا جنید احمد سے لے کر بشیر لشکری شہید تک سبھی نوجوان مقامی کشمیری ہی تھے۔ ان نوجوانوں کو یوں حق کیلئے جدوجہد کی پاداش میں دہشت گرد قرار دے دیا جائے تو اس سے بڑا اور ظلم کیا ہو گا۔ اسرائیل نے لشکر طیبہ کو حماس کے مشابہ قرار دے دیا اس سے بھی سمجھ آتی ہے کہ جیسے حماس سوفیصد مقامی فلسطینیوں کی ہی تنظیم ہے اور ان میں کوئی دوسری قومیت کا فرد شامل نہیں بعینہ لشکر طیبہ کا معاملہ ہے، لیکن ان کے خلاف اب یہ عالمی طاقتیں جمع ہو گئی ہیں۔ ان لوگوں کی اپنی پالیسیوں اور اقدامات کا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر کر کے فرمایا تھا ”تم یقینا ایمان والوں کیلئے دشمنی میں سب سے زیادہ بڑھا ہوا یہودیوں اور مشرکوں کو پائو گے” حالیہ یہود اور مشرکین کا کٹھ جوڑ قرآن کی حقانیت کی تصدیق کر رہا ہے۔
کائنات کا بدترین مشرک تو ہندو ہے اور وہ اس وقت مسلمانوں خصوصاً کشمیریوں کی دشمنی میں اس قدر سخت ہے کہ معمولی انصاف کی رمق رکھنے والی دنیا بھی ان اقدامات پر حیران و پریشان ہے۔ لشکر طیبہ ہزار بار کہہ چکی ہے کہ ان کا دائرہ کار مقبوضہ کشمیر تک محدود ہے لیکن مسلمانوں کی دشمنی پر جمع امریکہ، یورپ اور دیگر عالمی طاقتیں کوئی بات سننے ماننے پر تیار نہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب سارا مقبوضہ کشمیر بھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لئے سڑکوں پر ہے۔ بے پناہ خون پیش کر رہا ہے۔ ان کے خلاف یوں عالمی طاقتوں کا جمع ہونا اور پھر اس پر ہماری حکومتوں، ارباب اقتدار و اختیار و اہل سیاست کا بالکل لاتعلق ہو جانا انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔ جب مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کے پہلے یوم شہادت کے سلسلے میں بے پناہ سختیاں روا رکھ کر اندھے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ عین اس وقت بھارت کا وزیر دفاع ارون جیٹلی کشمیریوں کو انتہائی سخت دھمکیاں دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ کشمیر کے حوالے سے سخت فیصلے لینے میں کوئی دریغ نہیں کیا جائے گا۔ لشکر طیبہ کا نام لیتے ہوئے جیٹلی نے کہا کہ لشکر طیبہ کے اس سال 3بڑے کمانڈر سامنے آئے جنہیں ہم نے ختم کر دیا۔
بھارتی وزیر دفاع کی جانب سے ایسی کھلی دھمکیاں اور اس سے پہلے کشمیریوں کو ختم کرنے کے لئے بے پناہ طاقت اور ظلم کے ساتھ کیمیائی وحیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال بھی اب دنیا کے سامنے آ رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے ایک معرکے میں جو پلوامہ میں ہوا تھا۔ بھارتی فوج نے لشکر طیبہ کے 3مجاہدین کو شہید کرنے کے لئے انتہائی خطرناک اور مہلک کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا اور اس سے پہلے اسی مکان پر گن شپ ہیلی کاپٹروں سے گولے برسائے جہاں پر مجاہدین محصور ہو کر معرکہ آراء تھے۔
جب بھارتی افواج ناکام ہوئیں تو انہوں نے ہر طرح کی اخلاقی و انسانی حدود کو توڑ ڈالا۔ اس لئے کہ بھارت کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ہم اس موقع پر عالمی طاقتوں اور بھارت کو یہ کہنا اور بتانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے کشمیریوں کو مٹانے کیلئے 70سال میں ہر طرح کا ظلم ڈھایا، زور لگایا لیکن انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ کشمیری ہر روز پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہیں اوربھارت اپنی فوج کو ہی مسلسل مروا رہا ہے اور لاشیں اٹھا رہا ہے۔ بھارت کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر سوویت یونین اور امریکہ ساری دنیا کی مدد و حمایت کے باوجود افغانستان میں ذلت سے دوچار ہو کر شکست کھا چکے ہیں تو بھارت بھی تو وہ کشمیر میں زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکے گا۔ افسوس تو ہمیں اپنے ان لوگوں پر ہے کہ جو کشمیریوں کی حمایت میں محض بیان دیتے ہوئے خوفزدہ ہیں۔ کشمیریوں کے خلاف امریکہ و اسرائیل تک بھارت کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور کشمیری جن کے دفاع، بقا اور تکمیل کے لئے سب کچھ لٹا رہے ہیں وہ بالکل بے پروا دکھائی دیتے ہیں اور یہی سب سے افسوسناک اور تباہ کن صورتحال ہے جسے بہرطور بدلنا اور ختم کرنا ہو گا۔
Logo Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین ( برائے رابطہ:0321-4646375)