تحریر : سید توقیر زیدی پاکستان کشمیر میں موجودہ صورتحال پر اپنے موقف پر عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارتی موقف کے برعکس پاکستانی موقف قانونی’ انسانی حقوق اور مقبوضہ کشمیر کی وادی کی اکثریتی عوام’ جو کہ بھارت کے زیرِ تسلط کشمیر میں بھی اکثریت میں ہیں’ کی خواہشات سے مطابقت رکھتا ہے۔ رائے شماری کے ذریعے مکمل سابقہ جموں و کشمیر کے لئے حقِ خودارادیت کا مطالبہ اقوامِ متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے عین مطابق ہے۔کشمیر کا بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق سلامتی کونسل کی جانب سے بے بنیاد اور غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔تاہم پاکستان نے کبھی بھی کشمیر کی جانب ایسی طویل مدتی پالیسی یا حکمتِ عملی تیار کرنے کی طرف توجہ نہیں دی ہے جس میں اخلاقیات اور قوانین نتائج پر اثر انداز ہو سکیں بدقسمتی سے پاکستان کی کشمیر پالیسی’ جو اس کی مقامی سیاست پر ہی منحصر ہے۔
صرف قلیل مدت کی ناکام پالیسیوں کا مجموعہ ہے جنہوں نے کبھی بھی ایک طویل مدتی پالیسی کا روپ نہیں لیا ہے لہٰذا ہمارا ملک کشمیر پر بھارتی موقف اور اس کی پالیسیوں کی طویل مدتی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوا ہے اِس کے علاوہ دیگر پیش رفتوں نے بھی پاکستان سے زیادہ بھارت کو فائدہ پہنچایا ہے۔ دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں’ لہٰذا بین الاقوامی برادری کی کوشش ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی ممکنہ تصادم کو روکا جائے اور جیسے تیسے ہی سہی’ مذاکرات چلتے رہیں بجائے اس کے کہ مسئلہ کشمیر پر بھارت کی شدید مخالفت کے باوجود ایک منصفانہ حل زبردستی نافذ کر دیا جائے۔
Kashmir Issue
اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت خطے اور عالمی سطح پر ایک اہم ملک کے طور پر اْبھرا ہے اور دنیا کے بڑے ممالک اسے تنہا نہیں کرنا چاہتے۔ اس کے برعکس پاکستان مشکلات کی شکار اور ممکنہ طور پر ایک ناکام ریاست کے طور پر ابھرا ہے جس کی کشمیر کاز کے لئے حمایت جائز ہونے کے باوجود خود اس کاز کے لئے ایک بوجھ بن کر رہ گئی ہے ہمارے جو بھی نمائندگان مختلف ممالک میں پاکستان کی پوزیشن واضح کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں’ انہیں اس سوال کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا: کیا پاکستان ان حدود میں رہتے ہوئے کسی حل کی جانب پیش رفت کرنے کے لئے تیار ہے؟ اور اگر نہیں’ تو یہ وادی کے لوگوں کی پریشانیوں کو کس طرح ختم کرے گا۔
بھارت کے ساتھ تباہ کن تنازعے سے کس طرح بچے گا؟ اگر پاکستانی وفود نے جواب میں صرف یہی کہا کہ عالمی برادری قانونی اور اخلاقی تقاضے پورے کرتے ہوئے ہندوستان پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پاسداری کرنے کے لئے زور ڈالے تو وہ خالی ہاتھ ہی لوٹیں گے۔ ہمیں بھارت اور کشمیر کی جانب ایک طویل مدتی حکمتِ عملی تیار کرنی ہو گی۔
Pakistan
ہاں اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ ایک طویل مدتی حکمتِ عملی کام بھی کرے گی یا کارگر ثابت ہوگی خاص طور پر اب تک اگر بھارت کے انتہائی غیر لچکدار رویئے کو مدِ نظر رکھا جائے مگر جب تک ہم خود ایسی کسی حکمتِ عملی پر ایمانداری سے عمل پیرا نہیں ہو جاتے تب تک دنیا کے کسی بھی دارالحکومت سے کوئی بھی ایسا مثبت پالیسی ردِ عمل نہیں آئے گا جو بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اثرانداز ہو سکے۔ بصورتِ دیگر کشمیریوں کے پاکستان کے بارے میں بدترین شکوک و شبہات یقین میں بدل جائیں گے۔ پاکستان پر اْن کا تجدید شدہ اعتماد ختم ہو جائے گا۔
ہمارے وفود کشمیر کی حالیہ صورتحال کو کشمیری عوام’ بھارت اور پاکستان کے لئے قابلِ قبول حل کی حکمتِ عملی کے تناظر میں کس طرح پیش کریں گے جبکہ ہمارے پاس ایسی کوئی حکمتِ عملی ہے ہی نہیں؟ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا سوچنا آج چاہے جتنا ہی مشکل اور پرخطر لگتا ہو مگر اس امکان پر غور اور ساتھ ساتھ وادی میں انسانی اور سیاسی حقوق کی بحالی’ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق سمجھوتہ ہی اِس مسئلے کا واحد راستہ ہے۔ تمام دیگر حکمتِ عملیاں خلوص سے عاری ہوں گی۔