تحریر : پروفیسر رفعت مظہر عشروں سے مقبوضہ کشمیر کو ساڑھے سات لاکھ بھارتی فوجیوں کے بوٹوں تلے رونداجا رہا ہے ۔صبح ومسا انسانیت سوز واقعات لگاتار اور قطار اندر قطار۔ اسرائیل سے درآمد شدہ پیلٹ گَنز کے چھَروں سے 800 سے زائد کشمیری ایک یا دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو گئے اور 110 شہید ہوئے جبکہ کئی ہزار مرد ،خواتین اور بچے زخمی لیکن بھارتیوں کی ڈھٹائی کی انتہا کہ وہ کہتے ہیں کہ صرف 5 افراد دونوں آنکھوں اور 20 افراد ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہو ئے۔ اُدھر مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال یہ کہ ہسپتالوں میں زخمیوں کے لیے جگہ نہیں اِس لیے اُن کے مرکزی دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں ۔ 80 روزہ کرفیوں کی وجہ سے مارکٹیں ،سکول ،کالجز ،حتیٰ کہ میڈیکل سٹورز اور پرائیویٹ کلینک تک بند ہیں۔ کشمیریوں کو مسجدوں تک جانے کی اجازت نہیں اور یہ کشمیر کی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ کشمیریوں کو عید الاضحی کے اجتماعات کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ مقبوضہ کشمیر کے ”اُڑی” سیکٹر میں سکیورٹی کے لحاظ سے انتہائی مضبوط بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر حملہ ہوا جس میں 17 بھارتی فوجی مارے گئے۔
بھارت نے پاکستان پر الزام لگانے میں ایک لحظے کی بھی دیر نہیں کی جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ بھارت کا اپنا سٹیج کردہ ڈرامہ اور سوچی سمجھی سازش ہے کیونکہ اقوامِ متحدہ کے اکہترھویں اجلاس میں بھارت کا مقصد کشمیر میں ہونے والے ظلم و بَربریت کے خلاف کوئی جواز تلاش کرکے عالمی برادری کی توجہ کشمیر سے ہٹانا مقصود تھا ۔بھارتی اربابِ اختیار خوب جانتے تھے کہ اب کی بار میاں نواز شریف صاحب نہ صرف بھارتی جارحیت کی کھلے لفظوں میں مذمت کریں گے بلکہ عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے کی بھی کوشش کریں گے اِس لیے مودی حکومت نے2 کام کیے۔ پہلا یہ کہ اُڑی سیکٹر کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کے تیل ڈپو میں خود ہی آگ لگائی اور پاکستان پر دَراندازی کا الزام دھر دیا ۔وحشی درندوں نے مقبوضہ کشمیر کے 8 بے گناہ شہریوں کو شہید کرکے یہ الزام لگا دیا کہ یہ پاکستانی دَرانداز تھے جو اُڑی سیکٹر پر حملے میں ملوث تھے ۔ایک وزیر با تدبیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ بھارت کے پاس پاکستانی دَراندازی کے مکمل ثبوت موجود ہیں ۔اب بھارتی وزیرِاعظم باؤلے ہوئے پھرتے ہیں کہ ثبوت کہاں ہیں۔
دوسرا کام یہ کیا گیا کہ نریندر مودی نے پاکستان میں منعقد ہونے والی سارک سَربراہ کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا ۔ہو سکتا ہے کہ یہ سربراہ کانفرنس منسوخ کرنی پڑے کیونکہ بنگلہ دیش اور افغانستان تو ہر وقت مودی کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے ہیں ۔نریندر مودی اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں بھی شرکت نہیں کر رہے ۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ وزیرِاعظم نوازشریف 21 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے جبکہ بھارتی وزیرِخارجہ سشما سوراج 26 ستمبر کو ۔اقوامِ متحدہ کا پروٹوکول یہ ہے کہ سربراہانِ مملکت پہلے خطاب کرتے ہیں اور دیگر بعد میں ۔نریندر مودی اسی لیے خطاب نہیں کر رہے کہ وزیرِاعظم نواز شریف کے خطاب کے 5 دِن بعد سشماسوراج بھرپور تیاری کرکے میاں صاحب کے خطاب کا جواب دے سکے ۔اُڑی سیکٹر کا واقعہ کشمیری حریت پسندوں کا ردِعمل بھی ہو سکتا ہے جو یقیناََ بھارتی وحشت و بَربریت کا جواب ہے لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ یہ بھارت کا خود ساختہ ڈرامہ ہے۔
Uri Attack
بھارت اُڑی سیکٹر کا بہانہ بنا کر پاکستان کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دے رہا ہے ۔غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارت محدود جنگ شروع کر سکتا ہے کیونکہ کشمیر کی آزادی کی تحریک جس مقام تک پہنچ چکی ہے ،بھارت کسی نہ کسی بہانے اُس کا رُخ موڑنا چاہتا ہے ۔اِن حالات میں ہماری مسلح افواج تو مکمل طور پر چوکس ہیں اور حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔سپہ سالار نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ کسی بھی جارحیت کا مُنہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ملک کے اندرونی حالات مخدوش اور سیاسی جماعتیں باہم دست و گریباں ۔کپتان صاحب نے حسبِ سابق ایک دفعہ پھر طالع آزمائی کی ٹھان لی ہے اور اب کی بار تو اُنہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ مرتے دَم تک تحریکِ احتساب جاری رکھیں گے ۔وہ 30 ستمبر کو رائیونڈ کی طرف مارچ کرنے کا ارادہ باندھ بیٹھے ہیں جبکہ شیخ رشید جیسے صلاح کار جلتی پہ تیل کا کام کر رہے ہیں ۔شیخ رشید کو تو لال حویلی کے گردونواح میں بھی کوئی گھاس ڈالنے کو تیار نہیں لیکن وہ میاں نوازشریف کی دشمنی میں خالی خولی بڑھکیں مارتے پھرتے ہیں۔
اُدھر کپتان صاحب ہیں جن کی اپنی جماعت ٹوٹ پھوٹ اور دھڑے بندی کا شکار ہے لیکن اقتدار کی ہوس اُنہیں کسی پَل چین نہیں لینے دیتی اِس لیے شیخ رشید جیسے صلاح کاروں کی بات وہ ذرا قریب سے سُنتے ہیں ۔نوازلیگ کے ”وفاداروں” کا یہ عالم ہے کہ وہ میاں صاحب کی نگاہوں میں جچنے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں ۔کہیں ڈنڈے لہرائے جا رہے ہیں تو کہیں ڈنٹر پیلے جا رہے ہیں ۔ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے نیوز چینلز معاملے کو دبانے کی بجائے مزید ہوا دے رہے ہیں کیونکہ ریٹنگ کا سوال ہے ۔جہاں کہیں بھی نوازلیگ یا تحریکِ انصاف کے کارکُن ڈنڈے لہراتے نظر آتے ہیں ،نیوز چینلز کے کیمرے وہیں پہنچ جاتے ہیں ۔اِس تصادم کی فضاء میں کسی وقت بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے رہنماؤں کو ملک سے زیادہ اقتدار سے پیار ہے اور حالات خواہ کچھ بھی ہوں کوئی بھی اقتدار کی جنگ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔اگر خُدانخواستہ نوازلیگ اور تحریکِ انصاف کے کارکنوں میں تصادم ہو گیا تو پھر مرنے والوں کا لہو کِس کے ہاتھ پر تلاش کیا جائے؟۔
ہم احتجاج کے لیے نکلنے والوں اور اُن کا راستہ روکنے والوں کو کہے دیتے ہیں کہ یہ اقتدار کی جنگ ہے جس کا ایندھن نہ بننا ہی عقلمندی کا تقاضہ ہے ۔جذبات بجا اور اپنے اپنے رہنماؤں سے محبت بھی درست لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اقتدار کی جنگ لڑنے والوں کے اپنے بچے تو اپنے محلوں میں محوِ استراحت ہوں اور قوم کے بچوں کو اِس آگ میں جھونک دیا جائے ۔تاریخِ عالم اُٹھا کر دیکھ لیجئے ،فتح و نصرت ہمیشہ اُنہی قوموں کے حصّے میں آتی ہے جو متحد ہوتی ہیں اور ہزیمت اُن کا مقدر جو اندرونی افراتفری کا شکار ۔اگر کسی کو نہیں یاد تو ہم یاد دلا دیتے ہیں کہ اُدھر بغداد کی فصیلوں پر ہلاکو کمندیں ڈال رہا تھا اور اِدھر شہر میں 500 جگہوں پر مناظرے ہو رہے تھے ۔پھر بغداد کا جو حشر ہلاکو نے کیا ،وہ تاریخ ہے ہم ایٹمی پاکستان کے رہنماؤں سے یہی عرض کر سکتے ہیں کہ جمہوری ملکوں میں احتجاج سبھی کا حق ہے لیکن ایسا احتجاج ہرگز نہیں جس سے ملکی سلامتی داؤ پہ لگ جائے۔