72 سال پہلے 27 اکتوبر 1947 کو بھارت نے ریاست جموں و کشمیر میں اپنی فوج کے زریعے قبضہ کیا ،سات دہائیوں سے پاک بھارت تعلقات کشیدہ چلے آرہے ہیں جسکی سب سے بڑ ی وجہ کشمیریوں کے ساتھ بھارت کا ناروا سلوک اور وادی پر زبردستی قبضہ جمائے رکھنا ہے ،بھارت کا کشمیری خاص طور پر کشمیری مسلمانوں سے روا رکھے جانے والا سلوک ناقابل برداشت ہے ، آج بھی بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں جو تلخی اور تنائو موجود ہے اسکی سب سے بڑی وجہ یقینا مسئلہ کشمیر ہے۔
پاکستان اور دنیا بھر کے کشمیری 27 اکتوبر کو بھارتی قبضے کے خلاف یوم سیاہ مناتے ہیں لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کشمیری بھارت کے ظلم وستم کے خلاف احتجاجی ریلیاں اور تقریبات منعقد کر کے عالمی دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ انسانی حقوق کے علمبردار ممالک بھارت کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حق خود ارادیت کے لئے دبائو ڈالیں ، مسئلہ کشمیر پر موجودہ تلخی کی ایک بڑی وجہ بھارتی حکومت کا شدت پسند وں کے ہاتھ میں آنا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کا سیاسی پس منظر اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ مودی نے ہمیشہ اقتدار مسلمانوں کے خلاف اقدامات کر کے حاصل کیا، اگر تاریخ کو دیکھا جائے تو 1965کی جنگ نے پاک بھارت تعلقات میں عوامی سطح پر نفرت اور دشمنی کو گہرا کیا 1971 کی جنگ کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کا قیام عظیم سانحہ ہے ، محدود پیمانے پر جھڑپیں سیاچین کے مسئلہ اورکارگل کے محاذ پر ہوئیں بعد ازاں ممبئی حملہ اور دیگر واقعات کی وجہ سے پاک بھارت کشیدگی میں کمی واقع نہ ہوسکی ، قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا لیکن بھارت کے غاصبانہ قبضے کی وجہ سے مسئلہ کشمیر سات سے زائددہائیوں سے دونوں ممالک میں کشیدگی کا سبب بنا ہوا ہے آزادکشمیر کے رہنے والے اور پاکستان کی عوام مقبوضہ وادی کے نہتے شہریوں کی اخلاقی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں ،کشمیری نوجوان برہان وانی کی شہادت کے نتیجے میں کشمیر میں شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک کو کچلنے کیلئے بھارتی فوج کی جانب سے ظلم و ستم اور بربریت نے مقبوضہ وادی کے رہنے والوں میں جذبہ آزادی کو مزید تقویت فراہم کر رکھی ہے۔
اگر بھارت مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے میں سنجیدہ ہو جائے تو دونوں ممالک کے ڈیڑھ ارب سے زائد افراد کوایٹمی جنگ کے منڈلاتے سائے سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے ،بھارتی حکومت کشمیریوں پر ظلم بربریت کا جو پہاڑ 5اگست 2019سے کرفیو کے نفاذ کے بعد توڑ رہی ہے وہ عالمی برادری اور انسانی حقوق کے علم برداروں کے لئے ایک چیلنج کی حثیت رکھتا ہے ،سانچ کے قارئین کرام !27 اکتوبر کے یوم سیاہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں رہنے والے کشمیری منا رہے ہیں ، وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کشمیر پر بھارتی قبضے اور کشمیریوں کو حق خودارادیت کے حوالہ سے واضح طورپر موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر کرہ ارض کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے، ہزاروں نوجوانوں کو اغواء کرکے نامعلوم مقام پر قید کردیا گیا ہے۔
بھارتی ریاستی دہشت گردی آج پہلے سے کہیں زیادہ سفاکانہ رخ اختیار کر گئی ہے، عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھارت کے اس جبر کو ختم کرنے کا بھر پور مطالبہ کرتے ہیں نام نہاد “بڑی جمہوریت “ہونے کے دعویدار بھارت کا اصل چہرہ مکمل طورپر بے نقاب ہوچکا ہے، پاکستان مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور ذرائع ابلاغ کے بلیک آؤٹ کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے، پاکستان بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کی منسوخی کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔
وزیراعظم نے عالمی برادری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقو ق کے احترام و آزادی کو یقینی بنانے، عالمی برادری بھارت کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات سے امن و سلامتی کو لاحق خطرات کو روکنے میں کردار ادا کرے، کشمیریوں سے غیر متزلزل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ کشمیری بھائیوں و بہنوں کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا، پاکستان کشمیریوں کی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حق خود ارایت کے حصول تک انکی ہر سطح پر حمایت جاری رکھے گا۔