تحریر : علی عمران شاہین مقبوضہ کشمیر کے علاقہ گاندر بل میں پاکستانی کرکٹ وردی پہن کر اور پاکستانی قومی ترانہ پڑھ کر میچ کھیلنے والے تمام لڑکے ”عظیم بھارت ” کی سورما فوج نے گرفتار کر لئے۔اب گرفتار شدگان جیل میں اور لواحقین باہر تڑپ رہے ہیں اور بھارت کا خیال ہے کہ اس طرح وہ بہت جلد کشمیریوں کو زیر کر لے گا جبکہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ آزادی کے متوالے21سالہ نوجوان برہان مظفر وانی کی 8 جولائی 2016ء کو شہادت کے بعد سے جاری حالیہ تحریک آزادی آج بھی ہر روز فسوں تر ہے۔ 2ہزار کے قریب کشمیری بچے، عورتیں، بوڑھے اور نوجوان بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں کا نشانہ بن کر آنکھوں کی بینائی سے محروم ہو چکے ، زخمیوں کی تعداد 18ہزار سے زائد ہے۔
اکثر کو پیلٹ گن سے ہی گولیاں لگی ہیں،ان زخمیوں کی حالت یہ ہے کہ ان کے جسم پر ہی ہمیشہ کیلئے گولیوں کے نشانات نہیں ہیں بلکہ پیلٹ کے سیسے سے بنے ہونے کی وجہ سے ان زخمیوںکے جسموں میں سیسے کی مقدار بڑھ گئی ہے اور انہیں مسلسل طرح طرح کی تکلیف اور بیماریوں کا سامنا ہے۔ نشان زدہ ہونے کے باعث وہ بھارتی فورسز کے ہاتھوں جگہ جگہ بآسانی پکڑے جاتے ہیں۔ اس عرصہ میں 200سے زائد کشمیری شہید ہو چکے جن کی اکثریت نوجوانوں کی تھی اور جو ہمیشہ کیلئے اپاہج ہوئے وہ بھی سینکڑوں میں ہیں۔ بھارتی فوج نے 20ہزار سے زائد کشمیریوں کو جیل میں ڈالا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہر روز کتنے علاقوں میں نصف شب بھارتی فورسز گھروں میں آ دھمکتی ہیں۔
سوئے ہوئے لوگوں کو جگا کر مارا جاتا، خواتین کی بے حرمتی کی جاتی اور بچے گاڑیوں میں ڈال کر جیلوں میں ٹھونس دیئے جاتے ہیں ۔اس موقع پر جو ہوتا سو ہوتا ہے، بعد میںگرفتار شدگان کے لواحقین پر کیا گزرتی ہو گی، ہم تصور بھی نہ کر سکیں۔ اتنے بڑے اور مسلسل کشت و خون کے بعدبھارت نے کشمیریوں سے بات تک کرنا گوارا نہ کی۔فورسز کو مظالم سے روکنے کی بات نہ کی۔الٹا بار بار کہا گیا کہ پیلٹ گن کا استعمال جاری رہے گا بلکہ زہریلی گیسوں والے طرح طرح کے بموں کے ساتھ خوفناک پاوا (PAVA) اور دیگر ایسے بم بھی استعمال کئے جائیں گے۔ سارا عالم بھارت کے ساتھ ہے کہ یہ سبھی اسلام دشمن ہیں۔کشمیری اسلام کی بنیاد پر آزادی چاہتے ہیں اوراسی بنیاد پر الحاق پاکستان چاہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکی دفتر خارجہ نے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی جس میں پاکستان میں تو اقلیتوںپر ”مظالم” کا تذکرہ موجود تھا (جن کے بارے میں کسی کو پتہ نہیں کہ یہ مظالم کب اور کہاں ہوئے) لیکن 9ماہ کے اتنے بڑے کشت وکون کے خون بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا تھا۔ بھارتی فورسز کے اتنے مظالم بلکہ بھارت کے اندر ہر روز مسلمانوں پر ٹوٹتی قیامتوں کے ساتھ وہاں عیسائیوں، سکھوں اور دلتوں پر مظالم کا بھی امریکہ نے معمولی تذکرہ کرنا گوارا نہ کیا۔
اس سے پھر یہی سمجھ آیا کہ ان ساری طاقتوں کی اصل دشمنی تو اسلام سے ہے اور اسلام کے بغض میں وہ اپنے ہم مذہب لوگوں پر ہونے والے چھوٹے موٹے واقعات کی پروا نہیں کرتے۔ بعینہ جیسے جنرل ضیاء الحق کے طیارے میں امریکی سفیر کی موجودگی کے باوجود اسے تباہ کرنے میں دیر نہیں کی گئی کہ اصل نشانہ زیادہ اہم تھا۔ ان طاقتوں سے تو ہمیں انصاف کی امید رکھنی بھی نہیں چاہئے البتہ مقبوضہ کشمیر میں جاری حالیہ تحریک آزادی کا جو نیا رنگ پاکستان سے محبت اور لازوال الفت و یگانگت کی شکل میں دیکھنے کو ملا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ گزشتہ 9ماہ سے کشمیریوں نے اپنے درودیوار پاکستانی پرچموں سے رنگ دیئے۔ ان کے بچوں، نوجوانوں نے پاکستانی پرچموں والے لباس زیب تن کر لئے۔ خواتین نے پردہ کیلئے پاکستانی پرچم کا رنگ اوڑھ لیا۔ سبھی شہداء کے جنازے پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر قبرستان پہنچائے گئے اور برستی گولیوں میں پاکستانی پرچم لہرا کر شہداء کو دفن کیا گیا۔
کشمیری بچے اور نوجوان بھارتی فوج کی بندوقوں، گولیوں کے سامنے ہمارا پرچم لہراتے اور ہم سے ہی ملنے کے نعرے لگاتے اور گولیوں سے چھلنی ہوتے ہیں۔ 28 مارچ 2017ء کے روز مقبوضہ کشمیر کے علاقہ چاہ ڈورہ میں ایک مجاہد توصیف احمد کو شہید کرنے کے لئے بھارتی فوج نے بارودی کا استعمال کیا اور تین منزلہ مکان مکمل تباہ کیا تو یہاں محصور مجاہد ین کو بچانے کے لئے ہزاروں کشمیری گھروں سے نکل آئے۔ بھارتی فورسز نے گولیوں سے انہیں چھلنی کیا، تین موقع پر جام شہادت نوش کر گئے۔ ایک شہید تو 5بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ ان سب شہداء کو بھی جب دفن کیا گیا تو میتیں پاکستانی پرچموں میں لپٹی ہوئیں اور جنازوں میں پاکستانی پرچم نظر آ رہے تھے۔مائیں اپنے جگر گوشے پاکستانی پرچموں میں دلہے بنا کر رخصت کر رہی تھیں۔بھارت نے برسرپیکار مجاہدین کے دفاع میں نکلنے والے کشمیریوں کو بار بار دھمکیاں دی ہیں کہ وہ اس ”حرکت” سے باز آ جائیں ورنہ انہیں بھی ایسے ہی گولیوں کا سامنا ہو گا لیکن کشمیریوں کو اس سب کی کوئی پروا نہیں۔ اسلام کے نام پر پاکستان سے ملنے کا جذبہ اور محبت ان کے خون میں رچ بس چکے ہیں،جسے اب جدا کرنا تو ممکن نہیں، ان حالات میں ہم پاکستانیوں کو ہر سطح پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم ان کشمیریوں کیلئے کیا کر رہے ہیں؟چلئے! اسلامی غیرت و حمیت اور مظلوم کی مدد کیلئے نکلنے کے تاریخی و ملی جذبے کو تھوڑی دیر ایک طرف رکھیے، کیا آپ نہیں دیکھتے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے راستے آپ کے لئے کیا کیا تباہی کے منصوبے سامنے لا رہا ہے۔
بھارت نے چند روز پاکستان سے پانی کے معاملات پر مذاکرات کئے، پاکستانی حکام نے بغلیں بجائیں،مذاکرات میں کچھ نہ کچھ ہی سہی ان کا موقف تسلیم کیا گیا لیکن وہی بھارت جس نے اسلام آباد میں بیٹھ کر مذاکرات کئے تھے، پہلے اعلامیہ پر دستخط سے انکار کیا اور پھر دہلی پہنچ کر ان کا وفد کسی بھی طرح کی پیش رفت سے ہی مکمل مکر گیا۔ یہ اس بھارت کا حال ہے جس کے بارے میں ہمارے سبھی سیاستدانوں کے دل میں بڑا نرم گوشہ ہے۔ ہمارے یہ مذاکرات خاص طور پر اس کے دریائے چناب پر ڈیموں اور پانی روکنے کے معاملات پر تھے، جہاں سے بھارت 3ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا اور 17ہزار کے مزید منصوبے لگا رہا ہے۔ پاکستان کی ملک بھر کے لئے بجلی کی کل طلب 17ہزار میگاواٹ ہے۔ ذرا اتنا ہی سوچ لیں ، دنیا کی سب سے مضبوط و قانونی تحریک کے ذریعے اگر آپ کشمیر چھڑا لیں تو نہ صرف آپ کے پانی آزاد ہو جائیں گے بلکہ صرف ایک دریائے چناب کے پانی سے اتنی بجلی ملے گی جو ضرورت سے زائد ہو گی۔ ہماری معیشت، زراعت، تجارت، ترقی بلکہ سی پیک تک کشمیر سے جڑا ہوا ہے۔ اگر کشمیر نہیں چھڑاتے تو پھر دشمن اقوام متحدہ کا ہی اپنے حق میں وہ جملہ سن لیں کہ جو انہوں نے چند روز پہلے ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے اگر کشمیر سے آنے والے پانیوں کا معاملہ بھارت سے حل نہ کیا تو وہ چند سالوں میں نہ صرف صحرا میں تبدیل ہو جائے گا بلکہ اپنی خوراک کیلئے دوسرے ملکوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔
اگر ہم نے کشمیر کے حصول کے لئے آنکھیں نہ کھولیں تو اتنی بڑی تباہی سامنے کھڑی ہے کہ ہم نے تصور بھی نہ کیا ہو گا۔ ہماری خاطر کشمیری آج یوں سب کچھ دائو پر لگائے بیٹھے ہیں تو ہم کب تک ان کا تماشا دیکھتے اور انہیں ذبح ہوتے دیکھ کر بھی عارضی موج مستیوں میںمدہوش رہیں گے۔ اللہ نہ کرے ،ہماری غفلتوں سے وہ تباہ کن عرصہ آ جائے کہ کشمیری ہی ہم سے مایوس ہی ہو جائیں اور پھر جھولی میں گرتاکشمیر کہیں اور نہ نکل جائے۔ افغانستان سے ہمارے ملک میں اگر دہشت گردی ہوتی ہے تو اس کا سارا کھرا بھارت میں نکلتا ہے۔ ہم افغانستان کے ساتھ سرحد بند کر کے اپنے ملک کی برآمدات کے سب سے بڑے راستے کو ہی بند کر دیتے اور لاکھوں لوگوں کو سخت مصیبت و اذیت میں ڈال دیتے ہیں لیکن اصل دشمن بھارت کے ساتھ سرحد کو بند کرنے کی کبھی بات ہی نہیں کرتے، آخر کیوں؟ بھارت جس طرح ساری دنیا میں ہمارے خلاف لابنگ کر رہا اور ہمیں یک و تنہا کرنے اور دہشت گرد ریاست تک ڈکلیئر کرانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑ رہا تو ہم اس کے خلاف کیوں پسپائی کا شکار ہیں۔ کشمیریوں نے سب کچھ لڑا کر ہمارے لئے سب راستے آسان کر دیئے لیکن افسوس ہم نے ان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ پھر آیئے! بلاتاخیر اور بلاجھجک کشمیریوں کے ساتھ ساری قوم اور ساری امت مسلمہ کو صحیح معنوں میں کھڑا کر دیں کہ اسی میں ہماری بقا اور بچت ہے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو اگلا منظرسوچنے سے ہمیں پناہ ہی مانگنا چاہئے۔
Logo Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین (برائے رابطہ:0321-4646375)