استنبول (جیوڈیسک) ترک شہر استنبول کے مستغیث اعٰلی نے ان دونوں سعودی شہریوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے لیے منگل کو درخواست جمع کرائی تھی۔ اس درخواست کے مطابق احمد العسیری اور سعود القحطانی خاشقجی کے قتل کے منصوبے میں شامل تھے۔ ان دونوں کو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے قریبی مشیر تصور کیا جاتا تھا۔
احمد العسیری سعودی خفیہ ادارے کے سابق نائب سربراہ ہیں جبکہ سعود القحطانی سعودی ولی عہد کے خصوصی مشیر تھے۔ ان کو خاشقجی کے قتل کے بعد ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ خاشقجی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ایک کالم نگار اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ناقد تھے۔
ترک وزیر خارجہ مولود چاؤش آولو نے بدھ کو کہا کہ اگر اس قتل کی تحقیقات میں مشکلات پیش آئیں تو انقرہ حکومت بین الاقوامی سطح پر اس قتل کی تحقیقات کرانے سے گریز نہیں کرے گی۔ اس موقع پر انہوں نے ریاض کی جانب سے ترکی کو مکمل شواہد نہ کرنے پر بھی تنقید کی۔ اس قتل کی وجہ سے ریاض حکومت کی بین الاقوامی سطح پر ساکھ شدید متاثر ہوئی ہے جبکہ مغربی ممالک، جن میں امریکا، کینیڈا اور فرانس شامل ہیں، نے کم از کم بیس سعودی شہریوں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
خیال رہے کہ سعودی عرب نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے اپنے بیانیے کو بارہا تبدیل کیا ہے۔ پہلے یہ کہا گیا تھا کہ ریاض حکومت کو جمال خاشقجی کے بارے میں علم نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور بعد ازاں سعودی مستغیث اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق خاشقجی قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران مارے گئے۔ جمال خاشقجی کو استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں دو اکتوبر کو قتل کر دیا گیا تھا۔
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
ہیومن رائٹس واچ نے یمن میں انسانیت کے خلاف مبینہ جرائم اور سعودی صحافی جمال خاشقجی قتل کیس کے تناظر میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا ہے۔