لاہور (جیوڈیسک) قصور زیادتی اسکینڈل کے ساتوں مقدمات میں دہشتگردی کی دفعات شامل کردی گئی ہیں۔دہشتگردی کی دفعات شامل کرنے کا فیصلہ اعلیٰ سطح اجلاس میں کیا گیا۔اجلاس میں آئی جی پنجاب،ڈی آئی جی آپریشنزپنجاب ،آر پی اوشیخوپورہ شریک تھے۔پولیس کے مطابق بچوں سے زیادتی کیس کے 7مقدمات میں 7اے ٹی اے کی دفعات شامل کی گئی ہیں ۔اب تک واقعے میں ملوث 14ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
قصور میں بچوں سے زیادتی کے شرمناک واقعے کی ہرسطح پر مذمت کی گئ۔قومی اسمبلی میں متفقہ قرارداد منظور کی گئی، جس میں کہاگیا کہ قصور واقعے کے ذمہ داروں کو نشان عبرت بنادیا جائے ۔ قرارداد میں متاثرہ بچوں اور خاندانوں سے اظہار یکجہتی،مکروہ جرم میں ملوث عناصر کی گرفتاری و کڑی سزا دینے اور بچوں کے تحفظ اور ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے قانون سازی کامطالبہ کیاگیاہے۔قصور میں بچوں سے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم نے اعتراف جرم کرلیا ہے۔
حسیب عامر نے پولیس کو دیئے گئے بیان میں تسلیم کیا کہ اس نے بچوں سے زیادتی کی اور ان کی وڈیوز بنائیں۔ قصور کے علاقے گنڈا سنگھ والا میں ایک گینگ تقریباً 10برس سے بچوں کو نا صرف جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا رہا بلکہ ان کی ویڈیو بناکر بچوں کے والدین کو بلیک میل بھی کرتا رہا ۔ زیادتی کے شکار والدین سے بلیک میل کرکے لاکھوں روپے بھی بٹورے گئے۔تحقیقات سے اب تک280 بچوں سے زیادتی کی 400 ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں۔گینگ میں 25 سے زائد لوگ شامل ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے قصور واقعے پر فوری نوٹس لیتے ہو ئےواقعے کی جوڈیشل تحقیقات کا حکم دے دیا تاہم لاہورہائیکورٹ نے قصور واقعے کی عدالتی تحقیقات کیلئے پنجاب حکومت کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ پولیس پہلے ہی ان مقدمات کی تفتیش کر رہی ہے۔
لہٰذا ڈسٹرکٹ سیشن جج قصور کو جوڈیشل انکوائری کے لئے نامزد کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ بچوں سے زیادتی کے واقعات کی تحقیقات کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دیدی گئی ہے۔