تحریر : شاہ فیصل نعیم دیکھنے سے تو آج کا انسان تہذیب آشنا نظر آتا ہے مگر کبھی کبھی یہ ایسے افعال کا مرتکب ہوتا ہے جن کو دیکھ کر یو ں لگتا ہے کہ زرق برق ملبوسات میں ایک ایسا حیوان چھپا ہے جو کئی برس جنگلوں میں گزار کر آیا ہے جانوروں کے ساتھ رہنے کے باعث اُس میں بھی کچھ درندگی در آئی ہے جس کا ثبوت انسانوں کے روپ میں چھپے بھیڑئیے مختلف مقامات پر دیتے رہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ انسان کو انسانیت جیسے عظیم منصب کو پانے کے لیے ابھی صدیاں درکار ہیں۔
پاکستان میں انسانی درندگی کے واقعات آئے روز منظرِ عام پر آتے رہتے ہیں۔ اب تو یہ اس قوم کا معمول بن چکا جب تک کہیں سے کوئی سو پچاس کے مرنے یا اُن پر ظلم و زیادتی کی خبر نا سن لیں لوگوں کو نیند نہیں آتی اور بعد کا تو کھانا تک ہضم نہیں ہوتا۔
برس ہا برس سے لکھی جانے والی ظلم و ستم کی داستان ابھی کچھ روز ہی منظر عام پر آئی ہے جس نے ہر اُس انسان کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس کا ضمیر زندہ ہے۔ گنڈا سنگھ والا قصور میں پیش آنے والا واقعہ انسانیت کے نام پر دھبہ ہے جسے کچھ ایسے حیوانوں نے انجام دیا ہے جن کو حمایت حاصل ہے اپنے جیسے کچھ صاحبِ اختیار لوگوں کی۔ اطلاعات کے مطابق یہ کھیل پچھلے دس برس سے معصوم بچوں کے ساتھ کھیلا جا رہا تھا۔ کاروائی میں ٢٨٠ بچوں سے زیادتی کی ٤٠٠ ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں۔
اس گناہ میں ملوث ٨ ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا اور ناجانے کتنے ابھی قانون کی پہنچ سے دور ہیں۔ دس سے چودہ سال کے بچے بچیاں جنسی زیادتی کا شکارپائے گئے ہیں۔ ان بچوں کا کیا ہوگا حکومت کے لیے یہ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ حکومت نے پہلی ہی فرصت میں جوڈیشل کمیشن قائم کر دیا ہے جس کی تشہیر وہ کھلے عام کر رہی ہے۔ کہتے ہیں ماضی میں ہوئے واقعات حال کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
Child Abuse Kasur Incident
ماضی بتاتا ہے ایک واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بنا پھر پہلے کمیشن کی تحقیقات کے لیے دوسرا پھر دوسرے کی تحقیقات کے لیے تیسرا اور یونہی یہ کاروبار چلتا رہا عوام انصاف کی اُمید لگائے بیٹھے رہے مگر ان بیکاریوں کو کہیں سے کوئی انصاف نا ملا۔ ماڈل ٹائون میں بھی تو ١٦ لوگ مر گئے۔
بتائو قائدِ انقلاب یا حکومت کا کچھ بگڑا؟ بالکل نہیں ذلیل و رسوا ہوئے تو غریب کے بچے ، گھر اُجڑے کو اُمید لے کر نکلنے والوں کے اور لختِ جگر کٹے تو بوڑھی مائوں کے۔ اس ملک میں قانون ہے غریبوں کے لیے کیونکہ اسے بنا یا امیروں نے اور بناتے وقت اس بات کا دھیان رکھا ہے کہ خود کو قانون سے کیسے دور رکھنا ہے۔
یہ کمیشن بھی بس ایک وقتی جھانسا ہے جو غریبوں کو دیا جارہا ہے۔ اس کے کوئی کارآمد نتائج برآمد نہیں ہوں گے اور نا ہی غریبوں کی اتنی بساط ہے کہ وہ اس کی پیروی کر سکیں۔ رہی اس واقعہ میں ملوث لوگوں کی بات تو خدا خیر کرے اُن کے آقا سلامت ہیں وہ اس کاروبار کو کبھی ٹھنڈا نہیں ہونے دیں گے۔ چاردن کے لیے منظر سے غائب ہوں گے جیسے ہی معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا پھر سے وہی دھنداشروع ہو جائے گا۔