تحریر : مسز جمشید خاکوانی ایک وقت تھا جب لوگ علم حاصل کرنے دور دراز جایا کرتے تھے مہینوں سفر کرتے بھوکے پیاسے رہ کر بھی علم کی پیاس بجھایا کرتے اور جب اس علم میں کامل ہو جاتے تو وہ علم لوگوں میں بانٹا کرتے ،علم بیچتے نہیں تھے مدرسوں میں ،خانقاہوں میں سرائوں میں علم کے پیاسے لوگوں کو تعلیم دی جاتی بلکہ مفت کھانا بھی کھلایا جاتا اب تو مدرسوں اور خانقاہوں کو دہشت گردی کے گڑھ قرار دے دیا گیا ہے لیکن تب وہ مسلمانوں کی اکیڈمیاں ہوا کرتی تھیں اس لیے علم کو نبیوں کی میراث کہا گیا ہے یہ زیادہ دور کی بات نہیں ہم اپنے بچپن میں سنا کرتے کہ پڑھے لکھے لوگ از خود محلے کے بچوں کو پکڑ پکڑ کے پڑھایا کرتے بلکہ نہ پڑھنے پر پٹائی بھی لگاتے تو والدین استاد کی مار کو کرم قرار دیتے برا نہیں مناتے تھے خوش ہوتے کہ ہمارے بچوں کے بھلے کے لیے مارتے ہیں کیا والدین خود اپنے بچوں کو نہیں مارتے ؟ جانے ہم نے اپنے پرانے اصول گنوا کر کس سے یہ چیزیں مستعار لے لی ہیں کہ پورا معاشرتی نظام دھڑام سے نیچے آن گرا ہے اور ہم خود اس کے تلے دبے سسک رہے ہیں۔
کسی میں اخلاقی جرات نہیں کہ وہ اس کے خلاف آواز بلند کر سکے اسی بائیس اپریل کو ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا میری ماسی نے بتایا لودھراں میں ایک جوان لڑکی نے خودکشی کر لی ہے وہ کہنے لگی میرا بھائی اس لڑکی کے بھائی کی دکان پر ملازم ہے اس نے مجھے بتایا ہے کہ لڑکی نے میڈیا کی وجہ سے خود کشی کی ہے اچھا وہ کیسے؟اس نے مجھے تفصیل بتائی اور کہنے لگی باجی آپ اخبار میں لکھتے ہو یہ بھی لکھو بڑی زیادتی ہوئی ہے بیچاروں کے ساتھ ،میں نے اسے کہا میں ایسے نہیں لکھتی کیا سچ ہے کیا جھوٹ یا تو لڑکی کے لواحقین خود مجھے تفصیل بتائیں شائد اس نے ان سے بات کی ہو آج اس لڑکی کی بھابھی کا خود ہی فون آ گیا اس نے بتایا کہ خبریں میں بھی یہ خبر چھپ چکی ہے غالباً چوبیس یا پچیس تاریخ کو،، رخشندہ نامی لڑکی جس نے انگلش میں ایم اے کیا ہوا تھا بی ایڈ ،ایم ایڈ بھی ٹیچر بننا اس کا شوق تھا سرکاری اسکول میں پڑھا بھی رہی تھی اور گھر پر بچوں کو ٹیوشن دیتی تھی یہ سات بہنیں اور تین بھائی تھے چار بہنوں کی شادی ہو چکی ہے۔
رخشندہ غالباً سب سے چھوٹی تھی اس کی بھابھی نے بتایا کہ وہ نوعمری سے ہی بچوں کو پڑھا رہی تھی پندرہ برس ہو گئے اسے پڑھاتے ہوئے لیکن کبھی کوئی اس طرح کی صورت حال سے واسطہ نہیں پڑا تھا لوگ اپنے بچوں کو خود ہی چھوڑ جایا کرتے تھے اور یہ بھی کہتے زرا ان کو کھینچ کے رکھو پڑھتے ہی نہیں وہ بچہ بھی شرارتی ہو گا تو رخشندہ نے اسے ڈانٹ پلائی شائد پٹائی بھی لگا دی ہو بقول اس کی بھابھی کے ان لوگوں نے بچے کو پائیو ڈین لگا کے میڈیا کے سامنے پیش کر دیا انہوں نے اخبار میں دے دیا کیبل پہ چل گیا ان لوگوں کو بہت شرمندگی اٹھانی پڑی وہ رخشندہ کو لے کر ان لوگوں کے گھر گئیں معذرت کی لیکن بچے کی دادی نے کہا میں تو ابھی تھانے میں تمہاری طبیعتیں سیٹ کرائوں گی یہ بے چارے سفید پوش عزت دار لوگ تھے مزید پریشان ہو گئے لڑکی کے بھائی بازار میں کپڑے کی دکان کرتے ہیں ہر طرف سے ان کو پریشان کیا گیا آجکل میڈیا والے گھر گھر کیمرہ لے کر گھس جاتے ہیں نہیں دیکھتے اس کے سائیڈ افیکٹس کیا ہو نگے کتنے گھر تباہ ہوں گے کتنوں کی زندگیاں دائو پر لگیں گی ان تو بس ایک خبر اور اپنی ریٹنگ چاہیے ہوتی ہے اور ہمارے اس جاہل معاشرے میں ٹی وی پر آنا یا اخباروں میں خبر لگنا بڑی بات سمجھی جاتی ہے اس خبر کے میڈیا پر آنے سے دونوں گھرانوں پر مختلف اثرات مرتب ہوئے جہاں اس بچے کے لواحقین اس کو کیش کرانے میں لگے ہوئے تھے۔
وہاں رخشندہ کے گھر والے ایک عذاب میں مبتلا ہو گئے کہ تمھاری لڑکی کی تو میڈیا میں خبریں آ گئیں تمھارے تو گھر گھر چرچے ہو گئے کیا عزت رہ گئی تمہاری ؟ اس لڑکی کو جب ہر طرف سے ڈانٹ ڈپٹ اور ملامت ملی تو اس نے مر جانے میں ہی عافیت سمجھی بائیس اپریل کو اس نے زہریلی گولیاں کھا کر خود کشی کر لی لڑکی کے بھائی نے فون پر روتے ہوئے بتایا کہ باجی آجکل یا تو بہت پیسے والے مزے میں ہیں یا غریب جن کو میڈیا کے توسط سے مشہوری بھی مل جاتی ہے اور پیسہ بھی مارے گئے ہیں ہم جیسے سفید پوش طبقہ جن کو عزت پیاری ہے اس لیے ہمارے جیسے لوگوں پہ زمین تنگ ہو گئی ہے وہ کہنے لگا ہماری بہن جان سے گئی تو دو اخباروں والے جنہوں نے خبر لگائی تھی ہمارے پاس تعزیت کے لیے آئے ہماری بہن کی جان لے کر میڈیا کو کیا ملا؟ ہماری بوڑھی بیمار ماں جس کو رخشندہ سنبھالتی تھی اس کو نہلانا دھلانا واش روم لے جانا سب وہی کرتی تھی اس کو محتاج کر دیا ہمارے بچوں کے مستقبل تباہ کر دیے ہم کس سے فریاد کریں ؟قصور کس کا ہیمیڈیا کا؟ اس بچے کے لواحقین کا جنھوں نے ذرا سی مار کو انا کا مسلہ بنا لیا یا رخشندہ جیسی لڑکیوں کا جو اتنا پڑھ لکھ کر غریب نکمے بچوں کو تعلیم تو دیتی ہیں مگر اس زوال پزیر معاشرے کو عقل نہیں دے سکتیں اور قبر کی پناہ لیتی ہیں