تحریر : ایم ایس نور قارئین! چند روز قبل قصور کے علاقے حسین والا میں سامنے آنے والے پاکستان کی تاریخ کے سب سے شرمناک اسکینڈل نے دردِ دل رکھنے والوں کو خون کے آنسو رلا دیا۔ قومِ لوط تو اپنی کرتوتوں کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی مگر اہلِ سدوم ، بابا بلھے شاہ کی نگری میں کہاں آنکلے۔ گذشتہ پانچ سالوں سے انسانوں کے روپ میں بدشکل شیطانوں نے 284 معصوم بچوں کے ساتھ جو شیطانی کھیل کھیلا، بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز بنائی گئیں اور پھر بچوں اور ان کے والدین کو بلیک میل کرکے لاکھوں روپے، بلکہ کروڑوں روپے وصول کیے گئے۔ اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات و دیگر ذرائع سے ایسی ایسی خبریں سامنے آئیں کہ روح تک کانپ گئی۔ میڈیا سے وابسطگی کے سبب یہ بھی خبریں سامنے آئیں کہ حسین والا کے علاقے کا ایم پی اے اور علاقہ ایس ایچ او بھی مجرمان کے مکروہ فعل کی پشت پناہی کرکے ان کے گناہ میں برابر کے شریک تھے۔
قارئین! قصور کے نواحی علاقہ حسین خانوالہ میں پونے تین سو سے زائد بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے مسلسل بلیک میل کرنے اور سینکڑوں گھروں کو دیوالیہ کرکے برباد کر دینے والے ملزمان کے متعلق مزید ہولناک اور خوفناک انکشافات تاحال منظرِ عام پر آرہے ہیں۔ پہلے سے گرفتار شدہ ملزمان نے بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کا نہ صرف اعتراف کر لیا تھا بلکہ اپنے جرم کا اعتراف کرنے کے علاوہ ملزم حسیم نے یہ بھی مانا تھا کہ وہ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ مل کر ویڈیو فلمیں تیار کرتا تھا جبکہ باقی ملزمان اس دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کرتے تھے تاہم اس سے بھی زیادہ دلخراش انکشافات اس وقت سامنے آئے جب زیادتی کا نشانہ بننے والے بچے صحافیوں کو لیکر حویلی کرمونوالہ میں گئے۔ یہ حویلی گائوں سے باہر بنی ہوئی ہے اور اس کے اندر ایک کنواں بھی موجود ہے۔ حویلی میں تین کمرے ہیں۔
اس حویلی سے صحافیوں کی ٹیم کو نشہ آور ادویات، سرنجیں ،رسے ،اسلحہ اور دیگر اشیاء ملیں۔ شیطانوں کی درندگی کے شکار بچوں نے صحافیوں کو حویلی میں موجود کنواں دکھلاتے ہوئے بتایا کہ ملزمان راہ جاتے ہوئے بچوں کو زبردستی پکڑ لیتے اور ریڑھ کی ہڈی پر نشہ آور زنجکشن لگانے کے بعد زیادتی کا نشانہ بناتے اور اس دوران ان کی نازیبا ویڈیوز بنالی جاتیں۔ بچوں نے یہ بھی بتایا کہ جو بچے مزاحمت کرتے انہیں تیز دھار چھرے ،ٹوکے اور اسلحہ دکھایا جاتا اور زیادہ مزاحمت کرنے والے بچوں کو رسوں سے باندھ کر کنویں میں لٹکا دیا جاتا جس سے یہ بچے اس حد تک خوفزدہ ہوجاتے کہ ملزمان کو اپنی مکروہ حرکات کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آتی اور پھر یہ بچے کبھی زبان نہ کھولتے۔
Kasur Child Abuse
زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں کو بیس کے قریب ملزمان کا یہ گروہ مجبور کرتا کہ وہ گھروں سے نقدی اور زیورات وغیرہ لیکر آئیں اورجب گھروں میں سے اچانک زیورات اور نقدی وغیرہ غائب ہونے پر بچوں کے والدین تفتیش کرتے تو پھر انہیں علم ہوتا کہ ان کے اپنے بچوں نے چوری کی ہے۔ توباز پرس و ڈانٹ ڈپٹ پر بچے ملزمان کے متعلق اپنے والدین کو بتادیتے۔ جب بچوں کے والدین ملزمان سے رابطہ کرتے تو انہیں دھمکیاں دی جاتی کہ اگر انہوں نے کوئی قانونی کاروائی کی تو ان کے بچوں کی فلمیں انٹرنیٹ پر ڈال دی جائیں گی، جس سے ان کے بچوں کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی زندگی بھر کسی کومنہ دیکھانے کے قابل نہیں رہیں گے جس کے بعد یہ ملزمان بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو بھی بلیک میل کرتے تھے۔ ان ملزمان نے سینکڑوں والدین سے لاکھوں روپے کی نقدی و زیورات ،نہ صرف ہتھیا لیے بلکہ انہیں اپنا گھر بار بھی بیچنے پر مجبور کر دیا۔
عزت کے ڈر سے لوگوں کی بڑی تعداد ان ملزمان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہی۔ یہ سلسلہ 2008ء سے شروع ہوا اور حیرت انگیز طور پر2013ء تک جاری رہا اور اس دوران علاقہ کے لوگ اس قدر خوفزدہ رہے کہ کسی نے زبان کھولنے کی جرات نہ کی۔ لوگ دبے لفظوں میں ایک دوسرے سے اس بلیک میلنگ کا ذکر کرنے لگے توکچھ لوگوں نے جرات کرکے پولیس کو اطلاع کی تو ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے کہ پولیس ملازمین جو پہلے سے ملزمان کے ساتھ ملے ہوئے تھے وہ ملزمان کو تھانے میں انصاف کے لیے آنیوالے افراد کے نام وغیرہ بتا دیتے جس پر ملزمان انہیں مزید تنگ کرتے اور تشددکانشانہ بناتے
تاہم چند ماہ قبل جب علاقہ کے لوگوں کو پتہ چلا کہ ان کے گائوں کے علاوہ ارد گرد کے دیہات کے بچوں کی بڑی تعداد بھی ملزمان کی زیادتی اور بلیک میلنگ کا نشانہ بن رہی ہے تو چھ بچوں کے والدین مقدمات کے اندراج کے لیے ایک سماجی کارکن مبین احمد کے تحریک دینے پر تھانہ گنڈا سنگھ والا گئے جہاں پر موجود ایس ایچ او مہر اکمل نے ان کی داد رسی کرنے کی بجائے بیٹھے ہوئے والدین کی اپنے موبائل پر فلم بنائی ان سے درخواستیں لیکر رکھ لیں اور یہ فلم مبینہ طور پر ملزمان کے گروہ کے اہم کارندے سلیم شیرازی کے حوالے کر دی۔جس پر ملزمان نے اپنے خلاف درخواستیں دینے والے افراد کو تشددکانشانہ بنایا جس سے علاقہ میں اشتعال پھیل گیا اور اس طرح شروع ہونیوالے مظاہروں نے ملزمان کے اس بدترین درندگی کی تفصیلات کا پردہ چاک کر دیا۔
Kasur Police
جب صورتحال پولیس کے لیے درد سر بنی تو انہوں نے پہلے آنیوالی سات درخواستوں پر مقدمہ درج کرلیا تاہم پولیس پر یقین نہ ہونے اور ملزمان کے خوف کی وجہ سے دیگر متاثرہ خاندانوں نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ تاہم مختلف اخباروں میں شائع ہونیوالی خبروں اور رپورٹس کے منظر عام پر آنے کے بعد اب تک چالیس کے قریب مزید بچوںکے والدین درخواستیں دینے کے لیے تیار ہوچکے ہیں اور کل تک وہ درخواستیں تھانہ گنڈاسنگھ والا پولیس کے سپر د کر دیں گے ۔ یہ شرمناک صورتحال جب مزید واضح ہوئی تو ڈی پی او قصور نے موانتہائی بے حسی سے قف اختیار کیا کہ صرف سات بچوں کے والدین نے مقدمات درج کرائے ہیں۔ ہمارے پاس مزید کوئی مدعی نہیں آیا اور مزید مدعی آنے کی صورت میں ہی ہم مقدمات درج کر سکتے ہیں مگر زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں کی تعداد اس سے کہیں کم ہے جو میڈیا میں بیان کی جارہی ہے تاہم ڈی پی او قصور رائے بابر سعید کے اس موقف کی اس طرح تردید ہورہی ہے کہ ظلم وتشددکانشانہ بننے والے بچوں کے والدین کی بڑی تعداد قانونی کاروائی کے لیے پولیس سے رجوع کرنے لگی ہے۔
ڈی پی او قصور نے مبینہ طور پر ملزمان کے ساتھ ملے ہوئے ایس ایچ او مہر اکمل کو تبدیل کرکے طارق بشیر چیمہ کو ایس ایچ او گنڈا سنگھ والا تعینات کر دیا ہے۔دریں اثنا ء یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ ملزمان بچوں کے ساتھ لوطی فعل کی نازیبا ویڈیوز سی ڈیز پر رائٹ کرکے ایک مقامی میوزک سنٹر کے مالک کوبھی دیتے تھے جو ایک سی ڈی دوسو سے لیکر چار سو روپے تک فروخت کرتا تھا۔ یہ سی ڈیز علاقہ میں پھیلنے کے بعد بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کی خبریں تیزی کے ساتھ علاقہ میں پھیلیںاور ہزاروں افراد نے پولیس کے خلاف احتجاج کا اعلان کر دیا اور گذشتہ ہفتے جب ان کی کسی جگہ شنوائی نہیں ہورہی تھی انہوں نے پنجاب اسمبلی کے سامنے جاکر مظاہرہ کرنے کی تیار ی کی۔ ہزاروں لوگ جب اس لانگ مارچ پر نکلے تو پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی جس کے کے نتیجے میں تصادم سے پندرہ پولیس ملازمین اور ایک درجن سے زائد دیہاتی بھی زخمی ہوگئے۔
پولیس نے اس سلسلہ میں تین سو کے قریب دیہاتیوں کیخلاف دہشت گردی کی ایک ایف آئی آر درج کرکے سیل کر رکھی ہے اور عوامی دبائو کے پیش نظر وہ دیہاتیوں کو گرفتار کرنے کی جرات نہیں کررہی۔ پولیس اور عوام کے درمیان عدم اطمینان کی وسیع خلیج پیدا کر دی ہے بلکہ علاقہ میں غم وغصہ کی فضاء کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتی جارہی ہے۔ قارئین! جب ملزمان کے خلاف 284گواہیاں موجود ہوں اور ملزمان اپنے منہ سے اقبالِ جرم کرلیں تو پھر اصولی طور کسی جوڈیشل کمیشن یا جوڈیشل انکوائریوں کی گنجائش نہیں رہ جاتی ملزمان کا جرم اتنا بڑا ہے کہ انہیں مردانگی سے محروم کرکے سرِ عام ان کے سر قلم کردیئے جائیں اور ان کے جسموں کو جلا کر ان کی راکھ گندے نالوں میں بہا دی جائے تاکہ آئندہ کسی شیطان نما انسان کو معصوم بچوں کی طرف گندی نگاہ ڈالنے کی بھی ہمت نہ پڑے۔