تحریر: نعیم الرحمان شائق میرے سامنے قصور اسکینڈل اپنی تمام ترہیبت اور وحشیانہ منظر کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ میں اس منظر سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں۔ اس خبر سے دور بھاگنا چاہتا ہوں لیکن یہ کام بہت مشکل نظر آتا ہے۔ ارادہ تھا کہ یوم ِ آزادی پر لکھوں گا۔ اپنے پڑھنے والوں کو کچھ تاریخی واقعات کی سیر کراؤں گا لیکن ایسا نہیں کر سکتا۔ مجھے طوعا کرہا بابا بلھے شاہ کے قصور میں ہونے والے وحشیانہ سانحے پر کچھ نہ کچھ لکھنا ہی پڑے گا۔ اس بھیانک واقعے سے راہ ِ فرار اختیار کرنا میرے مشکل کیا، نا ممکن ہو چکا ہے۔
قوموں کی تاریخ میں کچھ ایسے واقعات بھی گزرتے ہیں ، جب پوری قوم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ بعض اوقات ایسے لمحات بھی آتے ہیں کہ جب قوم کا سر شرمندگی سے اتنا جھک جاتا ہے کہ پھر بہت دیر سے یہ سر اٹھتا ہے ۔ بلا شبہہ قصور کا یہ الم ناک ۔۔۔ بلکہ ہیبت ناک واقعہ ایسا واقعہ ہے کہ پوری قوم کا سر شرم سے اتنا جھک گیا ہے کہ اب نہ جانے یہ سر کب بلند ہوگا ۔ کہاں گئے مسلم اقدار ؟ ۔۔۔ کہاں گئیں مشرقی روایات ؟۔۔۔ اس اسکینڈل سے پہلے میں ہمیشہ اپنے جاننے والوں کو کہتا کہ تم امریکا اور یورپ کے خواب دیکھنا چھوڑ دو ۔ وہ ہم سے ہر میدان میں آگے ہیں۔
اخلاقی اقدار میں ہم سے پیچھے ہیں ۔ ہم اخلاقی گراوٹ کی اس سرحد کو چھونے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ،جسے مغرب پار کر چکا ہے ۔ میرے دوست مجھے اس پر ٹوکتے ۔ وہ کہتے ، تمھاری سوچ غلط ہے ۔ ہم اخلاقی طور پر بھی دیوالیہ ہوچکے ہیں ۔ میں کہتا ، نہیں ۔ تم غلط کہتے اور سوچتے ہو ۔ وہ کہتے تم ایک غلط دن غلط ثابت ہو جاؤگے ۔ تم نے جسے حقیقت سمجھا ہے ، وہ ایک نہ ایک دن ضرور تمھارے سامنے قیاس یا مفروضے کی صورت میں ظاہر ہو جائے گی ۔ تم ساکت وجامد ہو جاؤ گے ۔ قوم کے ضمن میں تمھار ا اخلاقی تفاخر ہوا میں تحلیل ہو جائے گا ۔ میں کہتا ، نہیں تمھاری سوچ قوم کے ضمن میں درست نہیں ہے۔ اپنی سوچ بدلو۔
Kasur Child Abuse Scandal Families
پھر جب قصور اسکینڈل کا علم ہوا تو واقعی میری سوچ کی مخالفت کرنے والے جیت گئے ۔ میں ہار گیا ۔ میں واقعی ساکت و جامد ہوگیا ۔ میری سوچ منتشر ہوگئی ۔ میر ی حقیقت قیاس بن گئی ۔ قوم کے ضمن میں میری ساری دانش وری محض ایک مفروضہ بن کے رہ گئی ۔ پہلی بار مجھ پر یہ راز کھلا کہ ہم تو اخلاقی گراوٹ میں مغرب سے بھی کئی قدم آگے بڑھ گئے ہیں ۔ جو حرکت میرے ملک کے باسیوں نے کی ہو ، مغرب والے شاید ایسی حرکت کرنے کا تصور بھی نہ کریں ۔ اب شاید میرے منھ سے کبھی یہ بات نہ نکلے کہ ہم کم سے کم اخلاقی اقدار میں ان سے آگے ہیں ۔ اب ہم تمام شعبوں میں ان سے پیچھے ہو گئے ہیں ۔ کیا سائنس ، کیا ٹیکنالوجی ، کیا معاش اور کیا سماج ۔۔۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں ہم سے بہت آگے بڑھے گئے ہیں۔
دو سو اسی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی !!! اتنی بری اور گھٹیا حرکت ! ہمیں ہو کیا گیا ہے !! “بچوں ” کا لفظ استعمال کر کے کلیجہ منھ کو آتا ہے ۔ پھر اس سے بھی گھٹیا اور ذلیل حرکت یہ کہ ان گندے مناظر کو فلمایا گیا ۔ کیا کبھی کوئی ایسی حرکت پہلے بھی دیکھی اور سنی گئی تھی ؟ اس سوال کا جواب “ہر گز نہیں ” میں ہوگا ۔ پھر اس سے بھی گھٹیا اور ذلیل حرکت یہ کہ ان فحش فلموں کو چائلڈ پورنو سائٹس کو فروخت کر دیا گیا ۔ ایک خبر بتاتی ہے کہ پینتیس کروڑ میں یہ فلمیں فروخت کی گئیں ۔ساتھ ساتھ والدین کو بلیک میل کر کے جو رقم کمائی گئی ، وہ الگ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم روز بہ روز اپنی اخلاقی اقدار بھول رہے ہیں ۔ ہم روز بہ روز وحشی ہوتے جارہے ہیں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہم نےا سلام کی حقیقی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ کیوں کہ اتنی گھٹیا حرکت کی نہ صرف اسلام اجازت نہیں دیتا ، بلکہ اس طرح کے کام کرنے والوں کو اسلام سخت سزا کا مستحق بھی سمجھتا ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے مشرقی اقدار بھی بھول گئے ہیں ۔ جب سے مغرب کا خام اخلاقی مال ہمار ی بازاروں میں بکنے لگا ہے ، ہم اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں ۔ اب صورت حال اس جگہ آ پہنچی ہے کہ ہم نے اخلا قی گراوٹ میں مغرب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔سیدھی سی بات یہ ہے کہ مغرب نے ہم سے اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ مشرقی اقدا ربھی چھین لیے ہیں۔
Kasur Scandal Suspects
قصور اسکینڈل بہت بڑا واقعہ ہے ۔ ملزموں کو تحقیق و تفتیش کے بعد سزا ضرور دینی چاہیے کہ وہ اس کے مستحق ہیں ۔ لیکن ایسے واقعات کی مکمل طور پر روک تھام کے لیے بہت ماہرین ِ نفسیات اور مفکرین و دانش وران کو اس بارے میں بہت زیادہ غور وخوض کی ضرورت ہے کہ آخر ایسے واقعات رو نما کیوں ہوتے ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہےکہ ہم روز بہ روز اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوتے جارہے ہیں ۔ کافی سوچ و بچار کے بعد اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے جو اقدامات کیے جائیں گے ، وہ ضرور موثر ثابت ہوں گے ۔ قصہ ِ مختصر یہ کہ اس ضمن میں صرف جذبات سے نہیں ، جذبات سے ہٹ کر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریر: نعیم الرحمان شائق ای میل: shaaiq89@gmail.com فیس بک: fb.com/naeemurrehmaan.shaaiq