اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے کئے اقدامات بھارت کو تنہا کردیں گے، نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ توبہ کرتا ہی نہیں ہے اس لیے قبول نہیں ہوتی، وہ توبہ کر لیں تو بات ہو سکتی ہے، میں ضمانت لینے کو تیار ہوں بس وہ جو کمایا ہے اس کے آدھے پیسے دیدیں چھڑانا میرا کام ہے۔
جیو نیوز کے پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں میزبان سلیم صافی کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے بریگیڈیئر اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ مودی نے یہ اقدام کر کے اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھونک کر قائداعظم کے بیانیے کو درست ثابت کر دیا ہے۔
مقبوضہ وادی کے رہائشیوں کے رد عمل پر انہوں نے کہا لوگ اس انتظار میں ہیں کہ کرفیو اٹھے گا تو دنیا دیکھے گی لیکن جو میری اطلاعات ہیں اس کے مطابق وہاں پر بھرپور احتجاج شروع ہو چکا ہے، بھارتی فوجیوں کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔
پاکستان کے اس معاملے پر کردار کے حوالے سے انہوں نے کہا اتنے کوئیک رسپانس کا کریڈٹ وزارت خارجہ اور وزیراعظم کو جاتا ہے کہ انہوں نے دنیا کو اس حوالے سے فوری اور بروقت آگاہی فراہم کی۔
متحدہ عرب امارات کی جانب سے مودی کو ایوارڈ دینے پر انہوں نے کہا ہر ملک کا اپنا معاشی مفاد ہوتا ہے، میں اس پر جانا نہیں چاہتا۔
انہوں نے کہا ابھی دنیا میں آگاہی اتنی زیادہ ہو چکی ہے اور میں آپ کو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت کا جو بھی فیصلہ ہو لیکن وہاں کی عوام مکمل طو رپر کشمیری عوام کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔
جہادی تنظیموں کو کالعدم قرار دینے اوران کے سربراہوں کو قید کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا ہمیں دنیا کو بتانا ہے کہ ہم امن پسند ملک ہیں۔ پلوامہ کے بعد جو ہماری حکومت کا Stance رہا ہے وہ ہمارے گھر میں تو تنقید کا نشانہ بنا ہے اور اس سے جو ہمارا امیج تھا کہ ہم دہشت گرد ریاست ہیں اس میں بہت فرق آیا ہے، ہم نیو کلیئر پاور ہیں اور اللہ نہ کرے کہ ہم اس اسٹیج پر جائیں کہ جنگ کرنا پڑے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر جنگ ہوئی تو جہاد کے لیے لوگوں کو بلایا بھی جائے گا، اس موقع پر انہوں نے اعلان کیا کہ امین گنڈا پور کے ساتھ میں بھی جنگ کے لیے جاؤں گا۔
انہوں نے کہا مقبوضہ کشمیر اور آزادی کشمیر کے عوام کو ہم یقین دلاتے ہیں کہ حکومت پاکستان، پی ٹی آئی کی حکومت ان کے مکمل طور پر ساتھ ہیں، عمران خان کو ان کی بہت فکر ہے۔
امریکن صدر ٹرمپ کی ثالثی اور کشمیریوں کی اس تشویش کہ ادھر کا کشمیر ادھر والوں کااور ادھر کا کشمیر ادھر والوں کا پر انہوں نے کہا یہ تصور ہے کہ ادھر کا کشمیر ادھر اور ادھر کا کشمیر ادھر ایسا ممکن نہیں، اس پر ہم جنگ کریں گے اور ہم یہ کہہ بھی چکے ہیں کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور جو اس کی ثالثی میں پڑے گا وہ خود پھنس جائے گا، بہتر تو یہ ہوگا کہ ہم خود ہی اس مسئلے کو حل کریں اور پرامن طریقے سے حل کریں۔
انہوں نے واضح کیا کہ جلد ہی دنیا دیکھے گی کہ پاکستان حکومت اور پاکستان آرمی کشمیریوں کو Disappoint نہیں ہونے دے گی۔
پاکستان کے سیاسی معاملات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اس خبر کی تردید کی کہ اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں میں ان کا کوئی کردار رہا ہے، انہوں نے سلیم صافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میں آپ کی قدر اس لیے نہیں کرتا کہ آپ سخت سوالات کرتے ہیں بلکہ آپ کی قدر اس لیے کرتا ہوں کہ آپ پڑھے لکھے صحافی ہیں اور آپ معلومات رکھتے ہیں لیکن کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ کوئی ایسا ملک جس نے دوران جنگ اپنے کریمنل کو چھوڑ دیا ہو یا اپنے کریمنل سے کہا ہو کہ تم پیسے لینا شروع کر دو، جب سیکنڈ ورلڈ وار ہوئی تھی لندن کے اوپر جرمن ائیر کرافٹ آیا تو اندھیرا چھا گیا تو چرچل نے پوچھا کیا ہماری فورس کام کر رہی ہیں جس پر اس کو جواب ہاں میں دیا گیا تو اس نے کہا پھر ہمیں ڈر نہیں، ہم جنگ جیت جائیں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا اگر ہم جنگ کا مطلب یہ لیں کہ ہم سارے قیدیوں کو، سارے لیٹروں کو، کرپشن کرنے والوں کو رہا کر دیں تو وہ جنگ کرنے نہیں جائیں گے بلکہ پھر سے ہمیں ہی لوٹیں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اس پکڑ دھکڑ کا سب سے زیادہ نقصان پی ٹی آئی کو ہوا ہے ٹھیک ہے ہم نے اپوزیشن کے ان لوگوں کو پکڑا ہے جنہوں نے مال بنایا ہے مگر پی ٹی آئی کے تو بغیر مال بنائے ہی لوگ اندر جا رہے ہیں۔
اس سوال کہ زرداری کی ہر کرپشن میں ذوالفقار مرزا ان کے رائٹ ہینڈ تھے اور وہ سب کرپشن جانتے ہیں کے جواب میں اعجاز شاہ نے کہا یہ باتیں تو ذوالفقار مرزا نے چار سال پہلے کی تھیں جب نواز شریف کی حکومت تھی پی ٹی آئی کی نہیں اس وقت نواز شریف کو ان کو گرفتار کرنا چاہئے تھا۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ ایم کیو ایم کے تقریباً ہر جرائم سے واقف ہیں تاہم انہوں نے یہ بھی وضاحت دی کہ ایم کیو ایم کے لوگ جو حکومت کے ساتھ بیٹھے ہیں وہ بانی متحدہ کی آئیڈیا لوجی کے ساتھ نہیں بیٹھیں ہیں۔
انہوں نے کہا مہاجر تو اپنی مال و دولت، رشتہ داری چھوڑ کر پاکستان آئے ہیں وہ دہشت گرد نہیں تھے، ان کو بانی متحدہ کی آئیڈیالوجی کی تحت دہشت گرد بنا دیا گیا، مگر اب وہ آئیڈیا لوجی ختم ہو گئی ہے، اب ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ ہم ڈھائی کروڑ کی عو ام کو سمندر میں پھینک دیں۔
رانا ثناء اللہ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا اینٹی نارکوٹکس فورس ایک جنرل کی کمانڈ میں کام کرتی ہے، اس کا ڈی جی ہوتا ہے اس کا منسٹر بھی ہوتا ہے ایسا کیسے ممکن ہے کہ وہ بغیر منشیات برآمد ہوئے ہی رانا ثنا اللہ کو گرفتار کر لیں۔ پکڑا گیا مال اور اس کی ویڈیو سب کیس کی پراپرٹیز ہیں اس لیے ان کو سر عام شو نہیں کیا جا سکتا، جب کیس چلے گا اور اس ثبوت کو طلب کیا جائے گا تو پھر سب ہی دیکھ سکیں گے۔
اس سوال کہ جب اس طرح کی صورتحال ہو کہ رانا ثنا اللہ کو اپنی گرفتاری کا خطرہ ہو اور پھر بھی وہ اس طرح سے ہیروئن لے کر جائیں وہ بھی اپنی گاڑی میں کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ نے کہا جس وقت لاء آف کنٹری فیل ہو جاتا ہے نہ تو لاء آف نیچر آ جاتا ہے جب تکبر، جب غرور، جب پیسہ آ جاتا ہے تو سامنے کنواں ہوتے ہوئے بھی لوگ چھلانگ لگا دیتے ہیں۔
خود احتسابی کے سوال پر انہوں نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اندر جھوٹ اتنا رچ بس گیا ہے کہ اگر ہم سچ بولیں بھی تو لوگ اس کو جھوٹ مانتے ہیں ہماری ہر ہفتے کابینہ کی 5 گھنٹے کی میٹنگ ہوتی ہے اور کئی پوائنٹس رکھے جاتے ہیں کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ عمران خان کی اجازت کے بغیر کوئی فیصلہ کر سکے، عمران خان خود چاہتے ہیں کہ پاکستان ریاست مدینہ بنے، پاکستان میں خود احتسابی کا عمل ہو، پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہو۔ سپریم کورٹ تو خود عمران خان کو صادق اور امین قرار دے چکی ہے تو پھر انہیں خود احتسابی کی ضرورت کیا ہے۔
عرفان صدیقی کی گرفتاری پر انہوں نے کہا اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ عرفان صدیقی کی گرفتاری میں میرا ہاتھ ہے لیکن میں سب کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان کی گرفتاری میں نہیں ان کے چھڑانے میں میرا ہاتھ ہے، ان کو میں نے چھڑایا ہے۔
انہوں نے کہا میں اتنا بے وقوف نہیں کہ عرفان صدیقی کو اس چارج پر گرفتار کرتا، میں کروں گا تو ٹھیک کروں گا اور وہ بندہ باہر آ جائے تو مجھے پکڑ لیجئے گا، مجھے تو یوں لگتا ہے کہ عرفان صدیقی کو نواز شریف کے لوگوں نے ہی پکڑوا دیا تھا۔ آپ دیکھیں کہ وزیراعظم نے اس کیس کا خود نوٹس لیا میں اس وقت اپنے گاؤں میں تھا مجھے پتہ چلا کہ وزیراعظم نے اس کا نوٹس لے لیا ہے تو میں نے اتوار کو عدالت لگوا کر ان کی ضمانت کروائی اور شام کو ہی جیل کھلوا کر ان کو نکالا ہے، اگر یہ کسی حکومت کے آدمی نے کیا ہوا تو پھر میں یہ تو نہیں کرتا۔
اس سوال کہ وزیراعظم کہتے ہیں اگر اپوزیشن دھرنا دینے آئے گی تو ہم ان کو کنٹینر بھی فراہم کریں گے اور پانی بھی فراہم کریں گے اس کے برعکس آپ کہتے ہیں کہ اپوزیشن اگر دھرنا دینے آئی تو چھترول ہو گی جبکہ مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد مین دھرنا دینے آرہے ہیں تو کس کے بیانیہ کو درست سمجھا جائے کے سوال پر انہوں نے کہا میں فوجی ہوں اور فوج میں یونٹی آف کمانڈ چلتی ہے اس وقت یونٹی آف کمانڈ وزیراعظم ہیں چلے گی ان کی اور وہ کنٹینر دیں گے اور پانی پلائیں گے ان کو پلائیں گے جو کہ ضابطہ کار میں رہتے ہوئے احتجاج کریں گے اس کے برعکس جو پراپرٹی کو نقصان پہنچائیں گے، لوگوں کے جانی نقصان کا سبب بنیں گے ان کی چھترول ہو گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی ان کے دھرنا دینے میں دو مہینے ہیں میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ نکلیں گے تو لوگوں نے ان کو ادھر ہی اینٹیں مارنی ہیں یہاں پہنچ ہی نہیں سکیں گے میں تو خواہش مند ہوں کہ نکلیں تاکہ اپنی موت آپ مریں۔ اس وقت ملک حالت جنگ میں ہے اور یہ جلوس اس لئے نکالنا چاہتے ہیں کہ یہ حکومت میں نہیں ہیں تو ان کو میں کہتا ہوں کہ نکلیں یہ اٹک بھی کراس نہیں کر سکیں گے ہمیں روکنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی عوام ہی ان کو گھر بھیج دے گی تاہم اگر یہ آگئے تو جس طرح تھوڑی بہت خان صاحب کے دھرنے میں سپریم کورٹ پر کپڑے پھیلانے کی اور سول نافرمانی کی اجازت تھی وہ ان کو بھی دی جائے گی وہ کریں جو کرنا چاہتے ہیں، یہ دارالحکومت ہے یہاں پر قوانین ہیں مگر ان پر عملدرآمد کرانے والا نہیں ہے مگر اب ہم رولز آف لاء پر عملدرآمد کرائیں گے۔
نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونے پر انہوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ 16 دسمبر کا سانحہ اے پی ایس ہوا تو اس قوم کے حکمرانوں کو نیشنل ایکشن پلان کی یاد آئی۔ یعنی 66 سال ہوگئے تھے پاکستان کو بنے اور ہمارے پاس کوئی پلان ہی نہیں تھا یہ قربانی دی تو نیشنل ایکشن پلان بنا۔ اب ہم نے اس پلان کے 14 گروپس بنائے ہیں 30 اگست کو یہ فائنل ہوجائے گا۔
اس سوال کہ موجودہ حکومت پرویز مشرف دور کا تسلسل ہے اگر نہیں تو پھر آپ یہاں کیسے آگئے کے جواب میں بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے کہا اگر یہ پرویز مشرف حکومت کا تسلسل ہوتا تو ان کی پارٹی ہمارے ساتھ ہوتی یا وہ خود ہمارے ساتھ ہوتے۔ میری یہاں موجودگی اس وجہ سے ہے کہ میں کسی بھی پارٹی میں نہیں رہا، پرویز مشرف سے تعلق تھا اور ہے، میں ان کے زمانے میں ان کا ڈی جی آئی بی بھی تھا۔ 2008ء میں میں نے استعفیٰ دیا کیونکہ میری اور جنرل کیانی کی پلاننگ تھی مسلم لیگ ق کو جتوانے کے بعد میں اس کو undo بھی ہم نے ہی کیا، کیانی میرے بھائیوں کی طرح ہیں میرے سے چھوٹے ہیں اور مجھ سے سینئر بھی نہیں مگر جنرل بن گئے۔ ق لیگ کی ڈیل بھی انہوں نے ہی پیپلز پارٹی کے ساتھ کروائی تھی اور نام میرا دیا تھا کہ یہ سب معاملات دیکھے گا پیپلز پارٹی سے ڈیل جنرل کیانی نے کی تھی اس لئے انہوں نے ان کو جتوایا بھی، ق لیگ کو ہم جتوانا نہیں چاہ رہے تھے بس ان کو اتنی سیٹیں دلوانا چاہ رہے تھے جتنی کہ مل گئیں اللہ بخشے بے نظیر کو ان کا مرڈر ہوا تو ان کو زیادہ سیٹیں مل گئیں ورنہ کیانی صاحب کا پلان تو یہی تھا کہ جتنی سیٹیں دینی ہیں اتنی ہی دیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے 10 سال اس کے بعد اپنے علاقے سے سیاست کی جس کے بعد میں نے الیکشن لڑا اور سیٹ جیتی اور آپ کے میڈیا کے ہی لوگ یہ کہتے ہیں کہ میری پراسرار واپسی ہوئی ہے۔ اس سوال کہ عمران خان اور پرویز مشرف میں بہترین رولر کس کو پایا کے جواب میں انہوں نے کہا دونوں ہی میری نظر میں بہترین ہیں۔ زیادہ اچھے کون ہیں کے سوال پر انہوں نے کہا آپ مجھے مروانے کی بات نہ کریں کیونکہ میں کسی کی دل آزاری کرنا نہیں چاہتا۔