واشنگٹن (جیوڈیسک) حکومتِ شام اور حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے وفود امن مذاکرات کے لیے پیر کے روز قزاقستان کے دارالحکومت میں اکٹھے ہوئے، جنھیں روس اور ترکی کی حمایت حاصل ہے، جس کے بارے میں باغیوں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اِس میں براہِ راست بات چیت نہیں ہوگی۔
متوقع طور پر، آستانہ میں منعقد ہونے والے مذاکرات دسمبر میں روس، ایران اور ترکی کی ثالثی میں طے ہونے والی جنگ بندی کو تقویت دینے کا باعث بننے پر دھیان مرتکز رکھیں گے، جو زیادہ تر ملک بھر میں نافذ رہی ہے۔
اس سے قبل ہونے والی جنگ بندی کی کوششیں، جن میں امریکہ اور اقوام متحدہ شامل تھا، زیادہ دیر نہیں چل پائیں جب لڑائی میں شامل فریق نے گولیوں کا تبادلہ کیا اور اس کا الزام ایک دوسرے پر لگایا۔ اِس سے پہلے ہونے والی امن بات چیت میں، جس میں ایک برس قبل ہونے والے مذاکرات بھی شامل ہیں، کوئی خاص پیش رفت حاصل نہیں ہوسکی، جس کا مقصد مارچ 2011ء میں شروع ہونے والے اس تنازعے کا خاتمہ لانا تھا۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، قزاقستان کے وزیر خارجہ، خیرات عبدالخانوف نے کہا ہے کہ ’’ہماری دلی خواہش ہے کہ شام کے بحران کے بارے میں بہتر نتائج برآمد ہوں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’اب یہ ہم سب پر منحصر ہے کہ حقیقی پیش رفت حاصل ہو، جس کے شامی عوام فی الواقع حقدار ہیں‘‘۔
اتوار کے روز بات چیت کے ابتدائی اجلاسوں میں اقوام متحدہ میں شام کے سفیر، بشار جعفری نے مخالفین پر ’’ذمہ داری سے کام نہ کرنے‘‘ کا الزام لگایا۔
اُنھوں نے اِن الزامات پر نکتہ چینی کی کہ دمشق سے باہر وادیِ برادہ کے علاقے میں شامی فوج کی کارروائی جنگ بندی کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ شام کا کہنا ہے کہ اِس لڑائی میں سابق النصرہ سے تعلق رکھنے والے شدت پسند ملوث ہیں، جس کے باعث شامی دارالحکومت کو پانی کی رسد متاثر ہوئی ہے۔
جعفری نے کہا کہ چونکہ یہ گروپ جنگ بندی میں شامل نہیں ہے، اِس لیے اُس کا دفاع کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ’’آپ غلط فریق کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘۔
شام کے اہم باغی گروپوں نے اس ماہ کے اوائل میں مذاکرات کی تیاری کے دوران اپنی شرکت منسوخ کردی تھی، اُن کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری ہے۔
باغی گروپ کے مذاکرات کاروں کے سربراہ، محمد الوش، جو بات چیت میں شریک ہیں، کہا ہے کہ باغی ’’امن کے حامی لوگ ہیں‘‘ اور تنازع کے سیاسی حل پر مذاکرات تبھی ممکن ہیں جب جنگ بندی ’’درحقیقت قائم ہوتی ہوئی دکھائی دے‘‘۔
اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے شام، استفان دی مستورا بات چیت میں شریک ہیں، جو کم از کم منگل تک جاری رہے گی۔
روس اور ترکی نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے درخواست کی تھی کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد مذاکرات میں شرکت کے لیے امریکہ کا وفد بھیجا جائے۔ تاہم، صدارتی عبوری دور کی نزاکتوں کے پیش نظر، امریکی محکمہٴ خارجہ نے بتایا تھا کہ قزاقستان میں تعینات امریکی سفیر، جارج کرول مذاکرات میں ملک کی نمائندگی کریں گے۔
شام میں روسی فوجی مداخلت کے معاملے پر نااتفاقی کے باوجود، ظاہر ہوتا ہے کہ روس امن عمل میں امریکی شرکت کا متمنی ہے۔