ہمارے وطن میں آئے دن کوئی نا کوئی نیا قانون اور منصوبہ بنتا اور بگڑتا رہتا ہے۔ نئے فیصلے صادر کئے جاتے ہیں ، آئینی ترامیم پاس کئے جاتے ہیں، کمیٹیاں بنتی ہیں اور ان سب کو لیکر بڑے بڑے دعوے کئے جاتے ہیں اور ان سب کا مقصد اخذ کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس سے جمہوریت مزید صحت مند، توانا اور مضبوط ہوگا۔ عوام بھی چاہتی ہے کہ جمہوریت مضبوط ہو مگر ایسی جمہوریت جہاں دہشت گردی کے بجائے امن و امان ہو، جہاں بیروزگاری کے بجائے وافر مقدار میں روزگار میسر ہو، جہاں قتل و غارت گری کے بجائے بھائی چارگی ہو۔
جہاں لوگ چہرے، زبان اور مسلک کی بنیاد پر پہچانے نہ جاتے ہوں بلکہ ایک قوم کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہوں۔جہاں لوڈ شیڈنگ کے بجائے تمام ضروری اور بنیادی سہولتیں عوام کو میسر ہوں، جہاں مہنگائی کے بجائے اس پر کنٹرول ہو، ڈالر کے مہنگے ہونے کے بجائے ہماری اپنی کرنسی مضبوط ہو، اس کے برعکس جب صحیح معنوں میں صدقِ دل سے ان فیصلوں ، منصوبوں اور قوانین پر عمل آوری اور اس کے نفاذ کی بات آتی ہے تو سارے کے سارے منصوبے دھرے رہ جاتے ہیں، کوئی قانون کام نہیں آتا بلکہ الٹا اس کی دھجیاں اڑا ئی جاتی ہیں۔
تمام قسم کی یقین دہانیوں کے باوجود وہ قانون اور وہ منصوبہ محض کاغذ کے فائلوں تک محدود کر دیا جاتا ہے اور پھر یا تو اقتدار کا وقت ختم ہو جاتا ہے یا پھر چھا جاتی ہے وہی خاموشی ، سناٹا اور سکوت کیونکہ پھر سے نئے الیکشن کا وقت قریب آجاتا ہے۔اس کے قریب آتے ہی ایک مرتبہ پھر سے وہی کہانی دہرائی جاتی ہے یعنی کہ نئے منصوبے کی نوید، نئے نئے خوابوں کی بازگشت اور عوام کو سبز باغ دکھانے کا عمل دوبارہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ اور ان کے دام میں پھنسنے کے لئے پھر سے وہی بھولی بھالی عوام ہوتے ہیں اسی لئے تو ہر الیکشن کے بعد سب کچھ عوام ہی برداشت کرتے ہیںاور ان ہی کے ساتھ ساری ناانصافیاں برتی جاتی ہیں۔
عرض طلب بات یہ ہے کہ ترقی پسندی تمام عالم کے انسانوں کو یکساں سمجھتی ہے، وہ ظلم کرنے والوں پر تنقید کرتی ہے جن لوگوں پر ظلم ہوتا ہے ان سے ہمدردی رکھتی ہے، ظلم کئی طرح کے ہوتے ہیں، مثال کے طور پر امیروں کے غریبوں پر، مالکان کے مزدوروں پر، بڑی قوموں کے چھوٹی قوموں پر، طاقتور لوگوں کے کمزوروں پر، آج کے اس فرقہ واریت کے دور میں انسانیت سوز واقعات کو لفظوں کا پیراہن پہنانا آسان نہیں مگر یہ شعر ضرور اس امر کی تصدیق کر دیگا کہ آج کل انسان تو ہیں مگر انسانیت ناپید ہے۔ دیکھو گے تو ہر موڑ پر مل جائیں گی لاشیں ڈھونڈو گے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
Pakistan People
ہم اور ہمارے جیسے ترقی پذیر ملکوں کے مظلوم پسماندہ عوام کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی اپنی صفوں میں اتحاد نہیں ہوتا اور وہ اپنے دشمن سے مقابلہ کرنے کے بجائے آپس میں ہی لڑکر اپنی بچی کھچی توانائی کو ضائع کرتی رہتے ہیں جیسا کہ آج کل ہماری سر زمین پر ہو رہا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کلیہ سے پاکستانی قوم بھی مستثنیٰ نہیں ہیں۔ ایک طرف اس ملک میں ایسی طاقتیں سرگرم ہیں جو اسلام اور مسلموں کا وجود ہی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور کسی نہ کسی حیلے بہانے سے ہم وطنوں کے در پے آزار بنے ہوئے ہیں۔
ان تمام برائیوں کی اصل وجہ ہمارے صفوں میں اتحاد کا نہ ہونا ہی ہے ۔ پاکستان قوم آج بھی اپنے گروپوں اپنی جماعتوں اور اپنی گروپ بندیوں میں بٹی ہوئی ہے اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ وحدتِ امت کا تصور سِرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ ایک گروپ دوسرے گروپ کو ، ایک جماعت دوسری جماعت کو ، ایک مسلک کے لوگ دوسرے مسلک کے لوگوں کو، بس نیچا دکھانے کی جستجو میں مصروفِ عمل ہیں۔ ہماری آپسی لڑائی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وہ جس دشمن سے لڑنے کا ارادہ کرتے ہیں وہ تو دور بیٹھ کر ہماری آپس کی لڑائی کا تماشا دیکھ رہا ہوتا ہے۔ ہم خود ہی اپنے سب سے بڑے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔ حقیقت تلخ ہے مگر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہم نے آپس میں لڑ لڑ کر اپنا اتنا نقصان کر لیا ہے کہ ہمیںکسی دشمن کی ضرورت ہی نہیں رہی۔
حالاتِ حاضرہ ہم سے گریہ وزاری کر رہے ہیں اور ہمیں دعوتِ عمل دے رہے ہیں کہ لڑائی جھگڑے، فساد مار دھاڑ، قتل و غارت گری چھوڑ کر آئو تعلیمی پس ماندگی، معاشی بدحالی، سیاسی گندگی، حرام و حلال کا فقدان، بے حیائی، زر پرستی ، بیجا اصراف اور اس جیسی دیگر لعنتوں کے خلاف لڑیں، قوم تباہی کے جس دہانے پر کھڑی ہے اس سے ہر خاص و عام واقف ہے، انسانیت شرمسار ہو رہی ہے، اور بیداری دور کھڑی ہمیں ہمارا فرض یاد دلانے میں سرگرم ہے۔
پاکستان میں اٹھارہ کروڑ سے زائد آبادی ہے مگر ہماری قوم ، شاندار اور تابناک ماضی، بے مثال تہذیب و تمدن کو چھوڑ کر کس طرف جا رہی ہے یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ مگر میرے احباب کو اس طرف توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں تاریخ شاہد ہے کہ حالات چاہے کتنے ہی ناسازگار ہوں حوصلوں کی بلندی اور عزائم کی پختگی انہیں ضرور پسپا کرتی ہے اور ویسے بھی ہمارے دین اسلام میں مایوسی کفر ہے اس لئے آیئے ہاتھ سے ہاتھ ملایئے اور اس ملک سے نفرت کے بیج بونے والوں کا قلع قمع کیجئے۔ راقم کا یہ فرض تھا کہ بتا کر تمام ناامیدی کا سدِّباب کر دیا اب ڈور آپ کے ہاتھ میں ہے ” جو چاہے حسن کرشمہ ساز کرے۔ علامہ محمد اقبال کا شعر ہے کہ: نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے ذرا نم ہو یہ مٹی تو بہت زرخیز ہے ساقی
Pakistan
اختلاف فطری عمل ہے اسے ختم کرنا ممکن نہیں ، مگر اہلِ وطن میں ہمیشہ سے مختلف قسم کے مسلکوں اور مکاتبِ فکر کا وجود رہا ہے اور اسے بھی ختم کرنا ممکن نہیں مگر پہلے بھی یہ سارے مسائل موجود تھے تب بھی تو ہم سب مل جل کر اکھٹے ہی رہا کرتے تھے ، اُس وقت بھی کوئی پٹھان، بلوچ، سندھی، مہاجر، سرائیکی، پنجابی نہیں تھا بلکہ سب پاکستانی تھے۔تو پھر آج وہی جذبہ پھر سے کیوں اُمڈ کر نہیں آتا۔ اصل چیز ہے اختلافات کے باوجود بنیادی امور پر متحد رہنا اور جب کوئی بڑا مسئلہ سامنے آجائے تو چھوٹے چھوٹے اختلافات کو فراموش کر دینا ہی اسلامی شعائر کے عین مطابق ہوتا ہے۔
یہی عقل مندی اور دانش مندی کا تقاضہ بھی ہے ، یہی صاحبِ فہم و فراست کی دلیل بھی ہے اور یہی باشعور ہونے کی علامت بھی ہے ۔ تاریخ کے اوراق کو کُریدنے سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ جب جب کسی بھی ملک کے باسیوں نے متحد ہو کر آپس کی گروہ بندیوں سے بالاتر ہو کر وسیع تر ملی مفاد کے لئے مفادات سے اوپر آکر کام کیا ہے فتح و کامرانی نے ان کے قدم چومے ہیں مگر جب تک آپس کے اختلافات میں الجھے رہے تو مسائل و مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔
تو آیئے آج ہم سب یہ عہد کریں کہ آپس کے تنازعات کو الگ رکھ کر ملّی مفاد میں یکجا ہو جائیں اسی میں ہماری اور ہمارے ملک کی بہتری ہے۔آج بکھری ہوئی قوم کی شیرازہ بندی کا ہمارے پاس یہی راستہ ہے کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں اور اندھیرے سے روشنی کی طرف گامزن ہو جائیں۔ اپنی تقدیر خود سنوارنے کے لئے ہی سہی یکجا ہو جائیں اور ایک مضبوط قوم بن کر دنیا کو بتا دیں کہ ہم ہی ہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار اور کسی دوسرے پر تکیہ کرنا چھوڑ دیں ، تو آپ یقینا کامیاب قوم بن جائیں گے۔ تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی