تحریر : علی عمران شاہین ”میں حضرت عمر کے طرز حکمرانی سے بہت متاثر ہوں، عوام کی فلاح کیلئے میں یہی کوشش کروں گا کہ انہی کے طرز پر حکومت و خدمت کروں”۔ یہ الفاظ ہیں بھارت کی سیاسی تاریخ میں سب سے بڑا بھونچال بپا کرنے والے نووارد سیاستدان اروند کجریوال کے جس نے ”وہ آیا، اس نے دیکھا اور فتح کر لیا” کی مانند نئی تاریخ مرتب کر دی۔ اس نے دارالحکومت نئی دہلی کو اپنا مرکز بنایا اور پھر 26نومبر 2012ء کو بننے والی اس پارٹی نے سال رواں میں نئی دہلی اسمبلی کی 70میں سے 67سیٹیں جیت کر سارے عالم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ کجریوال نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اپنے لئے رول ماڈل ایک مسلم ادارے کے دورے کے موقع پر قرار دیا۔ اسے وہاں ان الفاظ کی ادائیگی کے بعد خلیفہ دوم کی سیرت پر کتاب دی گئی تو کجریوال نے محبت سے اسے تھاما اور وعدہ دیا کہ وہ اس کتاب کا لازمی اور مکمل مطالعہ کرے گا۔
اروند کجریوال نے ملک سے کرپشن کے خاتمہ کو اپنی مہم اور پارٹی کا مرکزی نکتہ بنایا تھا۔ اس نے اس حوالے سے بھی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت مطہرہ کا مطالعہ کیا تھا کہ وہ کیسے عوام کے دلوںپر حکومت کرتے تھے۔ ان کی امانت و دیانت کا یہ عالم تھا کہ مال غنیمت سے سب لوگوں کو چادریں تقسیم ہوئیں جن سے بیشتر لوگوں کی قمیص نہ بن سکے۔ حضرت عمر فاروق کو اسی کپڑے کا سلا قمیص پہنے دیکھ کر ایک شخص برسر مجلس کہہ اٹھا کہ آپ تو ہم سب سے دراز قامت ہیں، اگر اس کپڑے سے ہمارا قمیص نہیں بنا تو آپ کا کیسے بنا ہے؟ پھر جواب وہ خود نہیں دیتے بلکہ اس سوال پر ان کی تیوری نہیں چڑھتی، توہین کا احساس نہیں ہوتا بلکہ وضاحت کیلئے اپنے فرزند کو برسر مجلس کھڑا کر دیتے ہیں کہ یہ بتائے گا کہ میں نے تو اس کے حصہ میں آیا کپڑا لے کر اپنا قمیص مکمل کیا یہ تو ایک مشہور عام روایت ہے وگرنہ سیرت عمر فاروق ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
انہی واقعات نے کجریوال کو سوچنے سمجھنے اور ایک نئی طرح کی سیاسی راہ اپنانے پر مائل و قائل کیا۔ اگرچہ کجریوال بی جے پی سے مسلم دشمنی میں کسی طرح کم نہیں۔ بھارت میں ہر روز مسلمانوں پر ظلم کی آندھیاں چلتی ہیں، عزتیں لٹتی ہیں، ہتھکڑیاں پہنے 6نوجوان عدالت لے جاتے وقت حملہ آور قرار دے کر گولیوں کی بارش کر کے ڈھیر کر دیئے جاتے ہیں، مساجد گرائی جاتی ہیں، توہین اسلام ہوتی ہے لیکن آج تک کبھی کجریوال نے اپنی زبان سے اس سب کے خلاف یا مسلمانوں کی مدد و حمایت میں ایک جملہ نہیں بولا، مبادا کہیں ہندو اکثریت اس کی مخالف ہو جائے۔ گزشتہ سال کے مظفر نگر اترپردیش کے بدترین فسادات کا سارے عالم میں چرچا ہوا تھا لیکن کجریوال کی زبان گنگ ہی رہی۔ اس سب کو تو چھوڑیئے، کجریوال نے جو اس سال انتخاب لڑا،
Election
اس میں اس نے 70میں سے 67سیٹیں جیتیں لیکن اس کے کامیاب ارکان میں محض چار ہی مسلمان تھے اور یہ بھی ایسے ”مسلمان” تھے کہ ”جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود”۔ ان کی اپنے حلقے یا سماج میں بھی کوئی حیثیت نہیں تھی اور ان سب کی سوچ بھی انتہائی محدود ہے کیونکہ ان میں کوئی زیادہ پڑھا لکھا اور سمجھدار فرد نہیں ہے کہ وہ پالیسی سازی میں کوئی کردار ادا کر سکے۔ کجریوال نے ان چار مسلمان ارکان میں سے وزیر بھی ایک ہی کو بنایا تو وہ بھی محض علامتی طور پر۔ اس کے متضاد دہلی اسمبلی میں پہنچنے والے عام آدمی پارٹی کے ارکان میں 23ایسے ہیں جو عادی مجرم ہیں اور ان پر سنگین مجرمانہ الزامات کے تحت مقدمات بھی درج ہیں۔ کجریوال کی پارٹی میں اس کے بعد جس شخص کو دوسرے نمبر کی حیثیت حاصل ہے وہ منیش سسودیا ہے۔ جن عادی مجرموں کو ٹکٹ ملے تھے،
ان میں سے بیشتر منیش کی سفارش پر اہل قرار پائے تھے۔ کجریوال نے سیاست میں قدم رکھتے ہی اپنی پارٹی کا نام عام آدمی پارٹی رکھتے ہوئے خود کو حضرت عمر کی راہ پر چلتا ہوا عام آدمی دکھانا شروع کیا۔ انتخابی نشان جھاڑو پسند کر کے نئی دہلی کی سڑکوں پر جھاڑو لگانا شروع کیا تو اسے ہر طرف سے پذیرائی ملی، سو وہ اب کھل کر سیدنا عمر فاروق کو اپنے لئے رول ماڈل قرار دے رہا ہے لیکن اس کے ساتھ مذہبی تفریق سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ نظر تو یہی آتا ہے کہ اس کا حال بھی کہیں انہی یورپی ممالک کا نہ ہو جائے جنہوں نے اپنے ہاں ریاستی نظام کو عوامی اور فلاحی بنانے کیلئے اپنے قوانین ہی نہیں بلکہ آئین میں ”قوانین عمر” کے نام سے ابواب شامل کر رکھے ہیں جس میں ہر انسان کے ہر حق کا خیال اور تحفظ ہے۔ دنیا میں سب سے کامیاب، مقبول اور فلاحی ریاست حضرت عمر فاروق نے قائم کی تھی او انہی کے قوانین و ضوابط کے تحت وہ کامیاب حکومتیں چلا رہے ہیں۔
اسی حوالے سے ایک روایت بھی ملاحظہ فرمائیے… ابن سعد ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن امیر المومنین حضرت عمر کے دروازے پر بیٹھے تھے کہ ایک کنیز گزری، ہم میں سے بعض کہنے لگے ”یہ امیر المومنین کی باندی ہے” آپ کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ امیر المومنین کو کیا حق ہے کہ وہ خدا کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لئے صرف دو جوڑے کپڑے، ایک گرمی اور ایک سردی کا اور بیت المال سے صرف معمولی کھانا ہی جائز ہے، باقی میری وہی حیثیت ہے جو عام مسلمان کی ہے۔ہمارے ہاں جو لوگ یورپ کے اس حکمران طبقے کی سادہ اور عام زندگی کی مثالیں دیتے ہیں،
Hazrat Umar
وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب تو انہوں نے حضرت عمر سے لیا ہے۔ وہ جب کسی کو کسی علاقے کا عامل بنا کر بھیجتے تو شرائط میں یہ بات انتہائی تاکید کے ساتھ شامل رکھتے کہ گھوڑے پر زین ڈال کر نہیں بیٹھنا، عمدہ کھانا نہ کھانا (چھنا ہوا آٹا تک نہ کھانا) باریک کپڑا نہ پہننا، اپنا دروازہ حاجت مندوں کی داد رسی کیلئے ہر وقت کھلا رکھنا اور کوئی دربان کھڑا نہیں کرنا، اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا تو اسے سزائیں دیتے۔ یوں انہوں نے وہ حکومت قائم کی تھی جس کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک امن و سکون تھا۔ ہر کوئی مطمئن تھا۔
آج کی مہذب کہلانے والی دنیا نے انسانی راحت اور انسانی ہمدردی کے لئے جتنے اقدامات اور قوانین وضع کئے ان سب کی بنیاد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہی تو رکھی تھی جس کا وہ کھلے بندوں اقرار کرتے ہیں بھارتی لیڈر مسٹرگاندھی بھی حضرت عمر ہی کو رول ماڈل قرار دیتے تھے
لیکن بات صرف رول ماڈل سمجھنے سے نہیں بنتی۔ اے عمر فاروق کی سیرت و کردار کو مثالی دیکھ کر اپنی دنیا سنوارنے میں مگن لوگو! آئو! ہم تمہیں دعوت دیتے ہیں کہ اس دین کو بھی اپنا لو جو حضرت عمر فاروق نے اپنایا تھا تو انہیں یہ مقام ملا تھا۔ اگر وہ دین بھی اپنا لو گے تو حضرت عمر کی طرح دونوں جہانوں کی کامیابی پا لو گے اور تاریخ میں بھی مقام پا لو گے۔