کینیا (جیوڈیسک) افریقی ملک کینیا میں عام انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ صدر اوہورو کنیاٹا اور اپوزیشن رہنما رائلہ اوڈنگا کے مابین کانٹے دار مقابلے کی توقع ہے جبکہ سکیورٹی تجزیہ نگاروں نے پرتشدد واقعات سے خبردار کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کے مطابق مشرقی افریقہ کی امیر ترین معیشت کینیا میں عام انتخابات عوامی سطح پر پرتشدد کارروائیوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ آٹھ اگست بروز منگل منعقد کیے جا رہے اس الیکشن میں حکمران پارٹی اور اپوزیشن کے مابین سخت مقابلے کی توقع ہے۔ ممکنہ پرتشدد واقعات کی روک تھام کے لیے حساس علاقوں میں سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق کینیا میں جب عالمی وقت کے مطابق صبح تین بجے پولنگ کا آغاز ہوا تو پولنگ اسٹیشنوں کے باہر لوگوں کی طویل قطاریں دیکھی گئیں۔ اس مرتبہ الیکشن میں ووٹرز کی شناخت کی خاطر الیکٹرانک سسٹم استعمال کیا جا رہا ہے، جو اس الیکشن کے شفاف اور غیرجانبدار ہونے کے حوالے سے اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
دارالحکومت نیروبی میں 43 سالہ ٹام موبایا نے اے ایف پی کو بتایا، ’’میں نے رائلہ کو ووٹ دیا ہے۔ وہ ہمارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ لیکن اگر وہ نہیں جیتتے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ جمہوریت ہے اور اس میں تشدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ انتخابات سے قبل ایک اہم الیکشن افسر کی ہلاکت کے باعث ملک میں کشیدگی کی لہر دیکھی گئی تھی۔
کینیا میں سن دو ہزار سات کے متنازعہ الیکشن کے بعد ملک میں شروع ہونے والے تشدد کے باعث ایک ہزار ایک سو افراد ہلاک جبکہ چھ لاکھ بے گھر ہو گئے تھے۔ 72 سالہ رائلہ اوڈنگا مجموعی طور پر چوتھی مرتبہ صدرات کے امیدوار ہیں۔
ماہرین کے مطابق متوقع طور پر وہ آخری مرتبہ اس عہدے کے لیے میدان میں اترے ہیں۔ اوڈنگا نے الیکشن سے ایک روز قبل ہی ایک ریلی سے خطاب میں کہا تھا کہ حکومت اس انتخابی عمل میں دھاندلی کی کوشش کر رہی ہے۔
سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں بھی اوڈنگا کو شکست ہو گئی تھی تاہم تب انہوں نے سڑکوں پر نکلنے کے بجائے قانونی کارروائی کو ترجیح دی تھی۔ گزشتہ الیکشن کو کینیا میں ایک اچھی مثال قرار دیا جاتا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار نک چیس مین نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا ہے کہ یہ الیکشن کوئی بھی جیتے، ہارنے والا نتائج کو چیلنج کرے گا۔ انہوں نے کہا، ’’دیکھنا یہ ہے کہ شکست کھانے والا امیدوار بعد میں کیا حکمت عملی اختیار کرتا ہے۔‘‘