کلیدی انتخابی ریاستوں میں ٹرمپ کی مقبولیت میں اضافہ: جائزہ رپورٹ

Trump

Trump

اوہائیو (جیوڈیسک) ایسے میں جب اگلے ہفتے ٹرمپ کلیولینڈ میں ری پبلیکن قومی کنوینشن میں شرکت کے لیے روانہ ہونے والے ہیں، ’کوئنی پیک‘ جائزہ رپورٹ کے تجزیہ کار نے کہا ہے کہ ’’ملک کی اِن تین سب سے بڑی داؤ پہ لگی ہوئی ریاستوں میں اُنھیں مختصر برتری حاصل ہوگئی ہے‘‘
واشنگٹن —
امریکہ کی اہم انتخابی ریاستوں میں ہونے والے رائے عامہ کے نئے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کے خلاف ری پبلیکن پارٹی کے ڈونالڈ ٹرمپ بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں، ایسے میں جب نومبر کے صدارتی انتخاب میں چار ماہ باقی ہیں۔

کوئنی پیک یونیورسٹی نے بدھ کے روز بتایا ہے کہ اس کے حالیہ سروے سے پتا چلتا ہے کہ ٹرمپ، جو جائیداد کے ارب پتی کاروباری ہیں اور پہلی بار منتخب عہدے کے لیے میدان میں اترے ہیں، اُنھیں فلوریڈا کی جنوب مشرقی ریاست میں 39 کے مقابلے میں 42 فی صد کی سبقت حاصل ہوگئی ہے، جب کہ تین ہفتے قبل اُنھیں آٹھ پوائنٹ کی سبقت حاصل تھی۔

جائزہ رپورٹ تیار کرنے والے ادارے نے کہا ہے کہ پینسلوانیا کی مشرقی ریاست میں ٹرمپ نے 41-43 کی سبقت حاصل کرلی ہے، جہاں اس سے قبل سابق وزیر خارجہ کلنٹن کو ایک پوائنٹ کی برتری حاصل تھی۔ ادھر اوہائیو کی وسط مغربی ریاست میں دونوں امیدواروں کی مقبولیت مساوی ہے۔

ایسے میں جب ٹرمپ اگلے ہفتے اوہائیو کے شہر، کلیولینڈ میں ہونے والے ری پبلیکن قومی کنوینشن میں شرکت کے لیے روانہ ہو رہے ہیں تاکہ وہ اپنی پارٹی کی صدارتی نامزدگی حاصل کرسکیں، کوئنی پیک جائزہ رپورٹ کے تجزیہ کار، پیٹر براؤن نے کہا ہے کہ ملک کی اِن تین سب سے بڑی داؤ پہ لگی ہوئی ریاستوں میں اُنھیں مختصر برتری حاصل ہوگئی ہے‘‘۔

کسی حد تک, یہ جائزہ اُن دِنوں لیا گیا جب امریکی فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے گذشتہ ہفتے طے کیا کہ اپنے نجی اِی میل سرور پر ’کلاسی فائیڈ اطلاعات‘ کی ترسیل کے معاملے پر کلنٹن نے ’’انتہائی غیر ذمہ دارانہ‘‘ انداز اپنایا تھا، جب وہ 2009 سے 2013ء تک ملک کی اعلیٰ ترین سفارت کار تھیں، لیکن اُن پر مجرمانہ خلاف ورزی کا الزام نہیں لگایا جاسکتا۔

قومی سطح پر، رائے شماری کے مختلف جائزوں سے اوسطاً کلنٹن کو ٹرمپ پر تقریباً چار پوائنٹس کی فوقیت دکھائی دیتی ہے۔ وہ امریکہ کی پہلی خاتون صدر بننے کے لیے کوشاں ہیں۔

تاہم، امریکی صدارتی انتخابات میں ووٹ قومی مقبولیت کی بنیاد پر نہیں پڑا کرتے؛ لیکن، تمام 50 ریاستوں اور قومی دارالحکومت واشنگٹن میں مقابلے کے نتیجے میں مرتب ہوتے ہیں؛ جب کہ ہر علاقے میں آبادی کے اثر و رسوخ اور کانگریس میں سینیٹروں اور نمائندہ ارکان کا کام اثرانداز ہوتا ہے۔

امریکی انتخابی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ’الیکٹورل کالج‘ کی حد تک کلنٹن کو ممکنہ ابتدائی برتری حاصل ہوسکتی ہے، جہاں صدارت کی جیت کے لیے 538 ’الیکٹرز‘ میں سے اُنھیں 270 کی اکثریت حاصل ہے۔

تاہم، جن تین ریاستوں میں کوئنی پیک نے اپنی جائزہ رپورٹ تیار کی ہے، جہاں چار سال کے امریکی صدارتی انتخابات کے لیے کانٹے کا مقابلہ رہا ہے، 2008ءاور 2012ء دونوں انتخابات میں ملک کی ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر براک اوباما نے ہر جگہ کامیابی حاصل کی تھی۔ اس سال بھی امیدواروں میں جو بھی تین میں سے کم از کم اِن دو ریاستوں میں کامیاب ہوگا، وہی جنوری میں اوباما کی جگہ سنبھالے گا، جب وہ اپنی میعاد صدارت مکمل کریں گے۔

بدھ کے روز ٹرمپ نے اپنے نائب صدر کے چناؤ کا کام جاری رکھا۔ اُنھوں نے انڈیانا کے گورنر مائیک پینس کے ساتھ ناشتہ کیا؛ جب کہ ایوانِ نمائندگان کے سابق اسپیکر نیوٹ گنگرچ کے ساتھ ملاقات اور نیوجرسی کے گورنر کرس کرسٹی سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ٹرمپ جمعے کے روز تک اپنی پسند کا اعلان کر دیں گے، جب کہ ری پبلیکن قومی کنوینشن میں تین روز باقی ہوں گے۔

ادھر، کلنٹن اگلے ہفتے اپنے نائب صدارتی امیدوار کا اعلان کرسکتی ہیں، جب کہ کچھ دِن بعد ڈیموکریٹک پارٹی کا قومی کنوینشن منعقد ہوگا۔ اُنھوں نے ٹرمپ پر الزام لگایا ہے کہ ٹرمپ نسلی تقسیم کی بنیاد پر امریکی معاشرے میں اشتعال کا باعث ہیں۔

اُنھوں نے الی نوائے کے شہر اسپرنگ فیلڈ میں ایک انتخابی ریلی کو بتایا کہ ’’امریکیوں کے لیے ڈونالڈ ٹرمپ کا پیغام بہت ہی بُرا اور خطرناک ہے‘‘۔