دُنیائے مسلم کو ہر سال ماہ ِربیع الاوّل کا بڑی شدت سے انتظار ہوتا ہے۔جیسے ہی اس ماہِ مبارک کا چاند طلوع ہو ہر طرف “میلاد شریف “کی محفلوں کا انعقادبڑی دھوم دھام سے”خطہِ مسلم” کو چار چاند لگا دیتاہے زمین و آسمان کا ہر گوشہ محبوب کائنات رحیم الرؤف سے بے پناہ عقیدت کا اظہار کرتا ہے چنانچہ جب یہ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ آغاز پذیرہوتا ہے تو زمین پرہی نہیں بلکہ آسمان پر بھی چاند اور ستارے اپنی بھر پور رونق کے ساتھ” جلوہ افروز” ہوتے ہیں۔ بیل بوٹے ،چرند پرندبھی اس بابرکت مہینے کی رونق و برکت سے مستفید ہوتے ہیں ۔ یہ وہ با بر کت مہینہ ہے جس میں 12 ربیع الاوّل کی نوید سحر سرکار ِدوعالم ، محبوب کبریا، شافی رحمت ،تاجدار مدینہ سرور سینہ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی معتبر عالیشان ہستی کی صورت میں دُنیا میں جلوہ گر ہوئی۔
حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنھہ کے بطن سے جنم لینے والااللہ کا یہ حبیب جس کی تمام تر تربیت خود بی بی دائی حلیمہ نے کی اور ایسی تربیت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جلیل القدر و عالیشان ہستی کے بارے میںخود اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتا ہوں اور تم بھی درود بھیجو۔اللہ تبارک وتعالیٰ خود قرآن کریم فرقان حمید میں فرماتے ہیں کہ “بیشک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اخلاق کے اونچے درجے پر ہیں “ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔ آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا کی گئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چالیس سال کی عمر میں مکے کی سب سے مالدارخاتون حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھہ جن کی عمر26 سال تھی نے خود نکاح کا پیغام بھیجا اور نکاح کے بعد اپنی تمام تر دولت حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے نچھاور کر دی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناصرف دُنیائے اسلام بلکہ تمام عرب کیلئے اپنی مثال آپ تھے۔محسنِ انسانیت، رہبر اعظم، ناشرِ حکمت، ہادی برحق، داعی انقلاب ، خلقِ عظیم کی شانِ مبارک کے بارے میں نپولین بونا پارٹ رقم کرتاہے ! “محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ایک مرکز ثقل تھی جس کی طرف لوگ کھنچے چلے آئے آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات نے لوگوں کو اپنا مطیع و گریدہ بنا لیا موسی علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام کے پیرو کاروں نے پندرہ سو سال میں کفر کی اتنی نشانیاں منہدم نہ کی تھیں جتنی ان کے ماننے والوں نے صرف پندرہ سال میں کر دیں حقیقت یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی ہستی بہت بڑی اور کامل و اکمل ہے”۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں و بڑوں سب کیلئے رب کریم کی خصوصی رحمت بن کر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں کی اعلیٰ تربیت پر بہت زور دیتے تھے بچوں کو خود سلام کرتے تھے۔بچوں کی تربیت کے سلسلے میں ہمیشہ نرمی کا درس دیتے تھے۔
Hazrat Muhmmad SAW
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے عورتوں کے سلسلے میں نرمی کا درس دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت و نرمی کا عالم دیکھیں !کہ ایک دفعہ مکے کی ایک بزرگ خاتون جونہ صرف اسلام کی دُشمن تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گلی میں سے گذرتے ہوئے اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پھینک دیتی تھی مگر آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی اُس عورت کی اس غلطی کا بُرا نہ منایا یہاں تک کہ وہ عورت کوڑا پھینکتی رہی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموشی سے گذرتے رہے۔ چنانچہ ایک دن جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گذر وہاں سے ہوا اور اُس عورت نے کوڑا نہ پھینکا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے اردگرد کے لوگوں سے اُس عورت کے بارے میں استفسار کیا تومعلوم ہوا کہ وہ عورت شدید بیمار ہے آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس عورت کے پاس گئے اُس کی عیادت کی ۔اُس کو دوائی لاکر دی اُس کے گھر کی صفائی کی جب اُس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حسن اخلاق دیکھا تو فوراَ مسلمان ہو گئی میرے محبوب آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک ہستی کے بارے میں پنڈت گوپال کرشن کہتا ہے کہ”رشی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پر جب ہم وچار کرتے ہیں تو یہ بات صاف صاف نظر آتی ہے کہ ایشور نے ان کو سنسار اور سدھارن بھیجا تھا۔
اُنکے اندر وہ شکتی تھی جو ایک Great reformer اور مہا پُرش(ہستی اعظم) میں ہونی چاہیئے”۔ ایک دفعہ ایک بدو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکو قتل کرنے کیلئے گھر سے نکل پڑا کافی چھان بین کے بعد جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درخت کی چھاؤں میں اینٹ سر ہانے دیئے آرام فرما رہے تھے اُس بد بخت بدو نے تلوارآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تان لی اور چلانے لگا کہ بتا اب کون میرے ہاتھ سے تجھے بچائے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالکل نہ گھبرائے اور فرمایا میرا خدا ! یہ سنتے ہی تلوار اُس کے ہاتھ سے گر پڑی اور وہ تھر تھر کانپنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلوار اُٹھا لی اور فرمایا کہ اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا وہ بدو فوراَ ہی قدموں میں گر پڑا اور مسلمان ہو گیا۔عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ اس مبارک دن کے موقعہ پر مسلمانانِ اسلام سرکار ِ دوعالم پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یوم ولادت باسعادت کے سلسلے میں میلاد کارنفرنسیں منعقد کرتے ہیں درود و سلام و نعت خوانی کی محافل سجائی جا تی ہیں۔ بازار گلیاں ، سڑکیں و سرکاری عمارتیں “دلفریب”منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں رات کو چراغاں کیا جاتا ہے غرض کہ ہر طرف عید کی سی چہل پہل اور بے پناہ رونق ہوتی ہے۔
Allama Iqbal
لنگر پکا کر سرکارِ دوعالم پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے نام کی خیرات کیجاتی ہے۔ جلسے جلوس ریلیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے سکولوں ،کالجوں میں غرض کہ ہر طرف درود و سرور کی محافل سے فضاء معطر ہو جاتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عالیشان ہستی کے وقار کو بلند کرنے میں پورا قرآن ہر جگہ تفاسیر پیش کر رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انصاف اور سچائی کے بارے میں دین اسلام کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے اپنے اشعار میں سرکار دوعالم پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہستی کو کچھ اس طرح سے اُجاگر کرنے کا اہتمام کیا ہے : کی محمد پاکصلی اللہ علیہ وآلہ وسل سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں اقبال کے اس پیغام کی روشنی میں ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی ارشاداتِ آنحضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے ۔دوسری جنگ عظیم کے دوران جارج برنارڈ شا نے مفکرین کی طویل و عریض بحثیں سننے کے بعد کہا تھا کہ اگر” آج محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آجائیں تو دُنیا کے مسائل حل کرنے میں اتنی دیر بھی نہیں لگائیں گے جتنی دیر میں اس چائے کا کپ خالی کرنے میں لگاتا ہوں”۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر کامل ہیں جس کی روشنی میں “سفر حیات”کا تعین کیا جا سکتا ہے ۔آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات وہ “مینار نور”ہے جس سے بھٹکے ہوئے آہو سوئے حرم نکلتے ہیں۔کونین فخر رُسل ،بشر شہ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت ایسی بے مثال سیرت ہے جس کے بارے میں حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھہ فرماتی ہیں کہ”آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتقال کے وقت کوئی درہم کوئی دینار نہیں چھوڑا، نہ اونٹ نہ بکری”۔قرآنِ کریم فرقان حمید کا روزانہ پڑھنا اور دوسروں کو پڑھانا ناصرف باعث رحمت ہے بلکہ باعث اجر بھی ہے ۔پاکیزگی کا تعلق نہ صرف کپڑوں سے ہے بلکہ جسم کی پاکیزگی بھی نہایت ضروری ہے۔لا الہ الا اللہ کا ذکر ہمیں بہت سی مشکلات اور پریشانیوں سے بچاتا ہے۔ الحمدللہ کے بہت زیادہ ذکر سے عنایات رب کریم کا بے پناہ ظہور ہوتا ہے اور رحمت خداوندی جوش میں آجاتی ہے ۔چنانچہ یہ ہم سب پر لازم ہے کہ ہم سب رب کریم کے حکم اور سرکارِ دوعالم پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی سنت پاک کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو بسر کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہم سے ہمارا رب اور محبوب خدا راضی ہو جائے۔(آمین) اے لجپال والے میں رو رو پکاروں کرو چشم ِ کرم کوئی جلوہ دکھا دو