تحریر: چوہدری دلاور حسین انسان تنہا رہنے سے قاصر ہے ۔مل جل کر رہنا اور روزمرہ امور کو سرانجام دینے کیلئے اْسے طرح طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔دن رات کی مسلسل مشقت کے بعد کچھ حصول زندگانی میسر آتا ہے ۔چنانچہ اسے اپنی ضروریات کی تکمیل کیلئے ہر لمحہ جستجو رہتی ہے ۔بعض اوقات یہ کاوش حصول کامیابی میں بدل جاتی ہے اور کئی مرتبہ ناکامیوں کی صورت میں بہت سی مشکلات کا سامنا رہتا ہے ۔یوں تو فکر معاش انسان کی زندگی کا اہم عنصر ہے یعنی روزگار کے سہل مواقع مل جائیں تو ہر لمحہ سکون و اطمینان اور اگرروزگار کے درست مواقع میسر نہ آئیں تو خواہ وہ مرد ہو یا عورت دونوں کیلئے شدید پریشانی کا باعث ہے۔
ہمارے اردگرد بہت سے افراد مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ہیںجن کی مالی حیثیت مستحکم ہونے کے سبب نہ صرف وہ خود کفیل ہوتے ہیں بلکہ مالی مشکلات کا شکار افراد کی بھی معاونت کو اپنا اوّلین فریضہ گردانتے ہیں ۔معاشرہ میں یوں تو بہت سے افراد روزگار کے حوالے سے مختلف شعبہ جات سے منسلک ہیںان میں خاص طو رپر ایسے افراد جو اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے سرانجام دیتے ہیں یہ نہ تو مالی طور پر مستحکم ہو پاتے ہیں بلکہ اپنی صحت بھی خدمات کی بجاآوری میں گنوا بیٹھتے ہیں۔رب کریم کے خصوصی کرم سے راقم نے ہر ممکن قلم کا درست استعمال کرتے ہوئے معاشرہ میں ہونے والی حق تلفی اور ناانصافی کو انتظامی امور کے ذمہ داران کے نوٹس میں لانے کی کوشش کی ہے تاکہ ظلم وستم کا خاتمہ ہو سکے اور انصاف کا بول بالا ہو ۔کوڑا کرکٹ و گندگی کو ختم کرنے اور ماحول کو صاف رکھنے میں خاکروب و سیور مینز اپنا کردار بخوبی ادا کرتے ہیں۔یہ سرکاری اہلکار جو کہ انتہائی کم درجہ کے ملازم ہیں اپنی صحت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے محکمہ ھذا میں آٹھ گھنٹے ڈیوٹی سرانجام دینے کے پابند ہیں۔موسم خواہ سرد ہو یا شدید گرم یہ عوامی خدمت کیلئے پیش پیش نظر آتے ہیں۔
خاکروب ہر شہر کی میونسپل کارپوریشن میں اور سیورمینز محکمہ واسا میں مستقل طور پر تعینات ہیں۔ان کی ماہانہ تنخواہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔خاکروب الصبح ٹوٹی پھوٹی جوتی و پھٹے پرانے لباس میں ملبوس جھاڑو بغل میں دابے اپنے اپنے علاقے کو صاف ستھرا کرنے نکل پڑتے ہیں ۔ نہ تو ان کے پاس جھاڑو درست ہوتا ہے اور نہ ہی ہتھ گاڑی ۔وہی سالوں پرانی ٹوٹی پھوٹی ہتھ گاڑی اور خستہ حال پرانا جھاڑو اس پر سونے پہ سہاگہ یہ کہ بدبو و جراثیم سے لبریز کوڑا کرکٹ جسے جگہ جگہ پلاسٹک بوریوں میںاکٹھا کر کے کنٹینر تک پہنچایا جاتا ہے ۔اس گندگی کی بدبو و جراثیم ان بیچاروں کی نس نس میں رچ بس جاتی ہے جس کے سبب یہ مجبور و بے بس اہلکار مہلک قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔اس جدید دور کے جدید سسٹم نے آج تک ان کی حالت زار پر سنجیدگی سے غور نہ کیا۔نہ تو انہیں حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ایسا یونیفارم مہیا کیا جاتا ہے جو ان کی صحت کو ہر طرح کے مہلک جراثیم سے محفوظ رکھ سکے اور نہ ہی ماسک مہیا کئے جاتے ہیں اور نہ ہی کوئی سکن کئیر لوشن جن کی بدولت یہ سانس و جلد کی بیماریوں اور خصوصاً کالا یرقان ، ٹی بی ، کالی کھانسی ، تشنج ، الرجک وغیرہ سے خود کو بچا سکیں۔خدا نخواستہ اگر یہ کسی خطرناک بیماری کا شکار ہو جائیں تو صرف چند عطائیوں کے سوا ان کا کوئی پْرسان حال نہیں۔نتیجہ یہ کہ یہ نام نہاد حکیموں و عطائیوں کی پوڑیوں و ربڑکی بوتلوں میں محفوظ رنگ برنگے شربت کے سہارے ہی بستر مرگ پر اس جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔ہر یونین کونسل میں تعینات چھ اہلکار جو کسی بھی یوسی کے نظام صفائی کو بہتر بنانے میں ناکافی ہیں اور وہ بھی بااثر افراد کے ڈیروں پر بْرجمان ۔پرانے ساز وسامان کے ساتھ فرائص کی بجاآوری میں مصروف نظر آتے ہیں۔
ایک سپر وائزر جسے عرف عام میں انچارج خاکروب کا نام دیا جاتا ہے ان کی مسلسل نگرانی کرتا ہے ۔موجودہ حالات میں زیادہ تر اہلکار ان کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتی کئے گئے ہیں جو ان انچارج و ایس او وغیرہ کے ہاتھوں چند سکوں کی اْجرت پانے کی خاطر بلیک میل ہوتے رہتے ہیں۔ان میں زیادہ تر نوجوان و بزرگ خواتین زیر عتاب ہیں۔سستی و کاہلی کاشکار مرد و خواتین کا ان سپروائزر ز کے ساتھ گٹھ جوڑ ہونے کی وجہ سے اکثر یوسی کے علاقے گندگی سے پْر نظر آتے ہیں جہاں کئی کئی ماہ عملہ صفائی نہ پہنچنے کے سبب وہاں کے مکین مختلف امراض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے مریضستان کے استقبالیہ ڈسک پر لمبی قطاروں میں پرچیاں بنوانے میں شدید کرب کی حالت میں اپنی قسمت کو کوستے نظر آتے ہیں۔گورنمنٹ ہر سال کروڑوں کا بجٹ عوامی فلاح کیلئے محکمہ صفائی و ادارہ واسا کو جاری کرتی ہے جس کا بنیادی مقصد صرف اور صرف عوام کو سہولیات بہم پہنچانا ہے مگر یہ بجٹ ہمیشہ فائلوں و منظور نظر افراد کی نظر ہو جاتا ہے یقینا یہی بْرا حال محکمہ واسا کے سیور مینز کا ہے جس کو بیان کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔یا رب میرے قلم کو وہ طاقت عطا کر کہ جس میں ایسی تاثیر ہو کہ وہ ذمہ داران کے دل مسکن پر اثر کر دے۔ یہ وہ اہلکاران ہیں جو دن و رات میں فرق کئے بغیر اپنی صحت و سانسوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گندگی سے لبریز گٹروں میں غوطہ زن ہو کر عوامی شکایات کا ازالہ کرنے میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے ۔کئی مرتبہ ایسے واقعات بھی رونما ہوئے کہ یہ بیچارے زہریلے سانپ و زہریلے حشرات کے ڈسنے کی وجہ سے فوراً ہی لقمہ اجل ہو گئے۔یہ عملہ اکثر دمہ ،سانس و الرجک جیسے موذی امراض کا شکار رہتاہے لیکن بدقسمتی سے ادارہ انہیں کوئی خاص میڈیکل سروس فراہم نہیں کرتا ۔
در در کی ٹھوکریں ان کا نصیب ۔پرنٹ و الیکٹرک میڈیا بھی ان کی دادرسی میں نمایاں کردار ادا کرنے سے قاصر ۔راقم یہ رقم کرنے میں حق بجانب ہے کہ اگر کسی بااثر کا بچہ گٹر میں جا گرے تو ہر طرف شور وغوغا کا ماحول جنم لیتا ہے اور فوری طور پر کئی اہلکاران معطل کر دیے جاتے ہیں ۔مگر ان بیچاروں پر کوئی تکلیف آن پڑے تو کوئی بھی دو میٹھے بول بولنا گوارا نہیں کرتا یہ سچ ہے کہ اس دور جدید میں غریب کا کوئی آسرا نہیں بنتا۔ہزاروں کی تعد اد پر محیط یہ مظلوم اہلکار چالیس سال کی سروس مکمل کرنے کے بعد بھی گریجویٹی و ماہانہ پنشن کیلئے اکائونٹ آفس میں دھکے کھاتے نظر آتے ہیں ۔ان میں زیادہ تر تعداد ان پڑھ ہوتی ہے جو صرف انگوٹھا نشان پر اْجرت حاصل کرتے ہیں یہاں بھی اکائونٹ آفس والے ظلم کرنے سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرتے بلکہ بتاتے کچھ اور لکھتے کچھ اور ہیں۔یہ تھوڑی سی ماہانہ پنشن کیلئے کئی سینکڑوں رشوت دے کر خلاصی کراتے ہیں۔ راقم جناب چیف جسٹس صاحب سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کرتاہے کہ خاکروب و سیورمینزخواہ وہ کیس بھی محکمہ کے ملازم ہوںان کی نہ صرف تنخواہوں میں اضافہ فرمایا جاوے بلکہ ان کیلئے ضلع کے بہترین ہسپتالوں میں علاج معالجہ کیلئے سپیشل میڈیکل کارڈ ز جاری فرمانے کے احکامات صادر فرمائے جائیں ۔مزید یہ کہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے والے اہلکاران کو فوری گریجویٹی و پنشن ادائیگی کیلئے علیٰحدہ کائونٹرز بنائے جائیں تاکہ ان کی حق داد رسی ہو سکے۔