تحریر : طارق محمود خان دسمبر 1994ء کی ایک سرد شام کا ذکر ہے کہ میں پیر و مرشد علامہ اختر سدیدی کے پاس سال کی آخری شام۔ ”علامہ کائناتی کے نام” تقریب کے سلسلہ میں انتظامات کا جائزہ لے رہا تھا۔ پیر ومرشد فرمانے لگے کہ روزنامہ ”تجارتی رہبر” اپنی روایت کے مطابق اس سال بھی خصوصی ایڈیشن شائع کرنا چاہتا ہے لیکن ہمارے پاس کاتب ایک ہی ہے۔ (واضح رہے کہ اس دور میں ابھی کمپیوٹر نیا نیا آیاتھا)۔ اس سے بات کرتے ہیں کہ وہ ہمارے یہ چار مضامین لکھ دے۔
ابھی ہم یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ رشید ہادی مرحوم’ تشریف لے آئے ۔ جو اس سال کائناتی اکیڈمی کے جنرل سیکرٹری بھی تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ پیرومرشد کیا بات ہے ؟ آپ پریشان ہیں توسدیدی صاحب فرمانے لگے کہ پانچ دن رہ گئے ہیں اور ایڈیشن کائناتی کیلئے مضامین لکھنے والا نہیں مل رہا۔ رشید ہادی کہنے لگے کہ کوئی مسئلہ نہیں آپ یہ آرٹیکل مجھے دے دیں اور طارق کو میرے ساتھ روزنامہ ”صورتحال ”کے دفتر میں بھیج دیں اس کے مالک خالد محمود میرے قریبی دوست ہیں اور انہوں نے نیا نیا کمپیوٹر لیا ہے واضح رہے کہ فیصل آباد میں ابھی صرف ڈیلی بزنس رپورٹ کے پاس کمپیوٹر تھا اور اس کے بعد صورتحال نے لیا تھا۔
کسی اخبار والے کے پاس کمپیوٹر نہ تھا اور کمپیوٹر کا استعمال بھی صرف باریک لکھائی کے لیے ہوتا تھا یعنی متن لکھا جاتا تھا جبکہ سرخیاں لکھنے کے لیے کاتب حضرات بدستور کام کرتے تھے۔ تجارتی رہبر میں استاد بشیر احمد ضیائی مین سرخیاں لکھتے تھے۔ جو پیرومرشد اخترسدیدی اور علامہ کائناتی کے انتہائی عقیدت مند تھے۔ بہرحال میں مضامین لیے رشید ہادی کے ساتھ چنیوٹ بازار روزنامہ ”صورتحال” کے دفتر گئے ایڈیٹر اورمالک خالد محمود سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ پیرومرشد اخترسدیدی کانام لیا تو انہوں نے انتہائی مسرت اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ سیدیدی صاحب نے مجھے اس قابل سمجھا کہ میں ان کے کام آسکوں۔
Newspaper
انہوں نے چائے منگوائی اورکمپیوٹر آپریٹر کے ہاتھ میں آرٹیکل تھمائے اور کہا کہ دو دن تک کمپوز کر دینا۔ مجھے اب کمپیوٹر آپریٹر کا نام یاد نہیں رہا۔ لیکن خالد محمود صاحب کا حسن اخلاق مجھے اب بھی یاد ہے۔جس نے مجھے بہت متاثر کیا۔یہ میری خالد محمود سے پہلی ملاقات تھی ۔اس کے بعد جب میں نے ظہیر قریشی مرحوم کے اخبار روزنامہ ”عوام” میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے 2001 ء میں کام شروع کیا تو پریس کانفرنسوں یا میٹنگز میں خالد صاحب سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ خالد محمود نے اپنا اخبار روزنامہ صورتحال کا آغاز شام کے اخبار کے طور پر کیا تھا اور ڈیلی بزنس رپورٹ کے بعد صورتحال قارئین کا پسندیدہ اخبار بن گیا تھا۔ اسی دور میں ”ڈیلی کرنٹ رپورٹ” نے بھی شام کی اشاعت شروع کر دی۔
خالد محمود صاحب نے صاف ستھری اورتوانا صحافت کو فروغ دیا اورتمام عمر زرد صحافت اور بلیک میلنگ کیخلاف جہاد کرتے رہے۔ روزنامہ ”صورتحال” کی ریکارڈ فائلیں اسی بات کی گواہ ہیں انہوں نے کبھی کسی تاجر ‘ سیاستدان یا کسی دوسرے صحافی کی پگڑی نہیں اچھالی بلیک میلنگ کی دوڑ میں شامل نہیں ہوئے۔ گروہ بندیوں میں نہیں پڑے ‘ پولیس ٹائوٹ کا رول ادا نہیں کیا۔کچھ عرصہ قبل ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ طارق تم آرٹیکل بہت خوبصورت لکھتے ہو آئندہ ایک مہربانی کیا کرو کہ آرٹیکل مجھے ”صورتحال” کیلئے بھی میل کر دیا کرو میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اس کے بعد میں نے انہیں جو بھی آرٹیکل میل کئے انہوں نے بہت خوبصورت انداز میں شائع کئے۔
Journalism
روزنامہ صورتحال میں محترم خالد محمود کی صاف ستھری اور بلیک میلنگ سے پاک صحافت دیکھ کر مجھے روزنامہ ”عوام” اور ظہیر قریشی یاد آتے ہیں جو لائلپور میں صاف ستھری صحافت کے بانی شمار ہوتے ہیں۔ خالد محمود ایک سادہ طبیعت کے درویش منش صحافی تھے ان کی وفات کی خبر مجھے دوران ڈیوٹی روزنامہ ”امن ”میں ملی تو بہت دکھ ہوا کہ ہم سے ایک بااخلاق’ ملنسار ‘ خدا ترس اور صحافت کو عبادت کا درجہ دینے والا انسان جدا ہوگیا۔ ان کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔
علی محمد ماہی ‘ ظہیر قریشی ‘ جاوید حمیری ‘ شفیق الرحمان سیفی’ کے بعد خالد محمود ملک کی وفات مقامی صحافت میں سانحہ سے کم نہیں۔ میری آپ سے آخری ملاقات گزشتہ ماہ روزنامہ ”تجارتی رہبر” کے آفس میں ہوئی میں برسی و پروگرام ”آخری شام ‘ علامہ کائناتی و اختر سدیدی ”کے نام کی خبر اور دعوت نامہ دینے گیا تو اس روز شاید ایڈیٹر کونسل کا اجلاس تھا۔ چونکہ روزنامہ ”پیغام” کا آفس بھی ساتھ ہی تھا اور منیر جیلانی چونکہ ایڈیٹر کونسل کے صدر ہیں اورانہوں نے اجلاس کی صدارت کرنا تھی۔ عتیق الرحمن سے دوران گفتگو پہلے روزنامہ ”نیااجالا” کے اصغر علی تبسم آئے ۔ ان سے دعا سلام ہوئی۔ تو تھوڑی دیر بعد خالد محمود ملک آئے۔
انہوں نے مجھے دیکھا تو آفس کے اندر آگئے۔ عتیق الرحمن سے بات چیت کے بعد میرا حال احوال پوچھا میں نے ”آخری شام ”تقریب کی دعوت دی تو انہوں نے کہا کہ جمعرات 31 دسمبر 2015 ء کو مجھے ضروری کام سے لاہورجانا ہے اگر میں وقت پر فیصل آباد آگیا تو ضرور شرکت کروں گا ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہوتی ہے کہ تم نے پیرومرشداختر سدیدی کے مرید اورعقیدت مند ہونے کا حق ادا کر دیا ہے۔
ورنہ کس کے پاس وقت ہے۔ آج روپے پیسے کی دوڑ میں غرق قوم کے پاس وقت کہاں ہے کہ وہ تقریبات منعقد کروائیں اور شرکت کریں’ میں تمہیں شاباش دیتا ہوں۔ عتیق الرحمن صاحب کہنے لگے کہ یہ اسی کی ہمت ہے ہمارے بس کا روگ نہیں خالد محمود کہنے لگے کہ عتیق صاحب چلیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ چلیں میں طارق کو خدا حافظ کہہ کر آتا ہوں۔ یہ میری خالد محمود سے آخری ملاقات تھی۔ وہ چلے گئے۔
Death Grief
یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی جسے میں کبھی نہیں بلا سکوں گا۔یہ حقیقت ہے کہ ہرشخص پر موت کا غم اپنا مستقل سایہ چھوڑ جاتا ہے کئی لوگ اپنے ذاتی غموں کو سینے کا چراغ بنا کر رکھتے ہیں مگر کچھ دیر بعد وہ زندگی کی دوڑ میں دوبارہ مگن ہو جاتے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ کون ٹھیک ہے اور کون غلط میں فیصلہ نہیں کر سکتا۔ بلکہ میں فیصلہ کرنے والا کون ہوتا ہوں۔ یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے۔مگر میری یہ بدقسمتی ہے کہ میں اپنے چاہنے والوں کی جدائی کا دکھ اپنے اندر پال کر رکھتا ہوں اور اپنے دکھوں کا خاموش نوحہ خواں بھی خود ہی ہوں۔ ان دکھوں میں پیر ومرشد اختر سدیدی ‘ ظہیر قریشی ‘شفیق الرحمن سیفی کے بعد اب خالد محمود ملک کی ِجدائی کا دکھ بھی میں کبھی بھلا نہیں پائوں گا۔