ماسکو (اصل میڈیا ڈیسک) روس کی میزبانی میں لیبیا کے متحارب دھڑوں کے درمیان جنگ بندی سے متعلق ہونے والے مذاکرات میں لیبی قومی فوج کے سربراہ جنرل خلیفہ حفتر نے جنگ بندی کی نگرانی میں ترکی کی شمولیت مسترد کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روس کی طرف سے تیار کردہ جنگ بندی مسودے میں قومی فوج کے کئی اہم مطالبات کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔
العربیہ کےذرائع کا کہنا ہے کہ روس کے جنگ بندی معاہدے کے مسودے میں لیبیا سے ترک فوج کی واپسی کی کوئی بات شامل نہیں کی گئی۔ اسی طرح خلیفہ حفترکو ترکی کی قومی وفاق حکومت اور ترکی کے درمیان معاہدوں کو ختم نہ کئے جانے پربھی تحفظات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قومی وفاق حکومت فوج کی اجازت کے بغیر کسی ملک سے کوئی معاہدہ نہیں کرسکتی۔ قومی وفاق حکومت کو ماضی میں کیے گئے تمام معاہدے ختم کرنا ہوں گے۔
خیال رہے کہ روس کے تیار کردہ جنگ بندی مسودے میں دونوں فریقین سے ہرطرح کی عسکری کارروائیاں روکنے پر زوردینے کے ساتھ ساتھ ایک مشترکہ عسکری کمیٹی قائم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہےجو دونوں گروپوں کے زیرانتظام علاقوں کی نشاندہی کرکے ان کے درمیان سیز فائرلائن مقرر کرے گی۔
روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے سوموار کو پہلے روز مذاکرات کے اختتام کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں بتایا ہے کہ تنازع کے بعض فریقوں نے جنگ بندی کے سمجھوتے پر دست خط کردیے ہیں لیکن لیبیا کے مشرقی علاقے سے تعلق رکھنے والی قومی فوج ( ایل این اے) کے کمانڈر خلیفہ حفتر نے اس معاملے پر غور کے لیے مزید وقت طلب کیا ہے۔
اس موقع پر ترک وزیر خارجہ مولود شاوش اوغلو نے بھی کہا کہ خلیفہ حفتر نے ڈیل پر غور کے لیے منگل کی صبح تک کا وقت مانگا ہے۔
لیبیا کے متحارب فریقوں نے ماسکو میں بالواسطہ امن بات چیت کی ہے۔روس اور ترکی ان متحارب فریقوں پر لیبیا میں پائیدار جنگ بندی کے لیے زور دے رہے ہیں تاکہ جنگ زدہ ملک میں امن واستحکام کی راہ ہموار ہو۔
ان مذاکرات سے ایک روز قبل ہی لیبیا کی اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ قومی اتحاد کی حکومت نے روس اور ترکی کی اپیل پر جنگ بندی سے اتفاق کیا تھا۔ اس کے اس فیصلہ سے پہلے ہفتے کی شب لیبی قومی فوج کے کمانڈر خلیفہ حفتر نے مشروط طور پر جنگی کارروائیاں روکنے کا اعلان کیا تھا۔
خود ساختہ فیلڈ مارشل خلیفہ حفتر کے زیر کمان قومی فوج اپریل 2019ء سے دارالحکومت طرابلس پر قبضے کے لیے وزیراعظم فایزالسراج کے زیر کمان فوج اور ملیشیاؤں کے خلاف جنگ آزما ہے۔خلیفہ حفتر نے گذشتہ سال نومبر میں اپنے زیر کمان قومی فوج کو طرابلس کی جانب پیش قدمی کا حکم دیا تھا۔ انھوں نے شہر میں موجود مسلح ملیشیاؤں کو ہتھیار ڈالنے کی صورت میں محفوظ راستہ دینے کی پیش کش بھی کی تھی۔
ادھر فرانسیسی صدر عمانویل میکروں نے لیبیا کے متحارب دھڑوں کے درمیان مذاکرات کی کوششوں اور جنگ معاہدے کی طرف پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ بندی خلوص نیت کے ساتھ دائمی ہونی چاہیے تاکہ دونوں فریقین مستقبل میں ملک کے سیاسی امور کے کسی جامع فارمولے پرمتفق ہوسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کی کوئی شق خفیہ نہیں بلکہ سارامعاہدہ اعلانیہ ہونا چاہیے۔