تہران (جیوڈیسک) ایران کی جوہری توانائی ایجنسی کے چیئرمین اور سابق وزیرخارجہ علی اکبر صالحی نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران اور مغرب کے درمیان مذاکرات تہران کے جوہری پروگرام پر سمجھوتے سے قبل بھی جاری رہے ہیں۔
امریکا اور ایران کے درمیان خفیہ مذاکرات کو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی سرپرستی حاصل تھی مگر سابق صدر محمود احمدی نژاد مغرب سے مذاکرات کے حامی نہیں تھے۔
ایران کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے ہفتہ وار پروگرام ’دست خط‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے سابق وزیرخارجہ نے انکشاف کیا کہ سپریم لیڈر نے مغرب سے خفیہ مذاکرات میں یہ شرط رکھی تھی کہ یہ مذاکرات وزراء خارجہ کی سطح پر نہیں ہونے چاہئیں۔ نیز ان میں سیاست اور جوہری پروگرام کے علاوہ اور کوئی موضوع شامل نہ کیا جائے۔
علی اکبر صالحی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکا اور ایران کےدرمیان خفیہ بات چیت کئی سال پرانی ہے۔ اس وقت محمود احمدی نژاد صدر مملکت تھے۔ ان کا خیال تھا کہ امریکا کےساتھ مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ انہوں [احمدی نژاد] نے مجھے کہا کہ تم لوگ غلطی کررہے ہو تو تاہم انہوں نے زیادہ مخالفت نہیں کی اور نہ ہی مجھے مذاکرات کی ترغیب دی۔
سابق ایرانی وزیرخارجہ نے امریکا کے ساتھ خفیہ بات چیت کے انکشافات کے دوران یہ بھی بتایا ان کے ساتھ مذاکرات کرنے والے امریکی عہدیداروں میں ایک کا نام ’مونیز‘ تھا جو جوہری توانائی کا ماہر خیال کیا جاتا تھا۔
واشنگٹن ۔ تہران خفیہ مذاکرات کی تاریخ ایران میں سنہ 1979ء میں برپا ہونے والے ولایت فقیہ کے انقلاب کے بعد امریکا کے تہران کے ساتھ تعلقات متاثر ہوئے۔ ایران نے امریکا کو ’شیطان بزرگ‘ قرار دے کر مرگ بر امریکا کا نعرہ اپنایا۔ سنہ 2008ء میں پہلی بار امریکی اور ایرانی عہدیدار ویانا میں آمنے سامنے آئے۔ ویانا اجلاس میں سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور امریکی جنرل آیکنبری نے شرکت کی بعد ازاں جنرل آیکنبری کو صدر اوباما نے افغانستان میں امریکی سفیر مقرر کیا تھا۔
سنہ 2001ء میں امریکا میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان اور عراق پر چڑھائی کے لیے ایران سے تعاون کا خفیہ منصوبہ تیار کیا تھا۔ صدر بش ایران کے ساتھ خفیہ بات چیت کے لیے تیار تھے۔ صدر بش کےدور میں امریکا اور ایران کے درمیان بات چیت کی بحالی بالواسطہ کوششیں ہوئیں مگر انہیں منظرعام پر نہیں لایا گیا۔ امریکا کو عراق اور افغانستان میں جنگ میں کامیابی اور اپنے اثرو نفوذ کے لیے ایسے کسی ملک کی ضرورت تھی کو امریکی شرائط پراس کے ساتھ کام کرسکے۔ اس وقت ہونے والے مذاکرات میں امریکی وزارت خارجہ کے ریان کروکر، وائیٹ ہاؤس کے مندوب زلمے خلیل زاد، اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر جواد ظریف اور ایرانی وزیرخارجہ کمال خرازی شامل رہے۔
اگرچہ ان مذاکرات کو خفیہ رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی مگر بعد ازاں امریکا اور ایران کے درمیان پس چلمن ہونے والی بات چیت کا بھانڈہ پھوٹ گیا۔ امریکی وزارت خارجہ کی عہدیدار ’ہیلری مان لورٹ‘ نے ایک مضمون میں انکشاف کیا تھا کہ بات چیت میں صدر جارج ڈبلیو بش نے طے کیا تھا اگر ایران تعاون پر تیار ہوتا ہے تو اسے عراق میں قائم ایرانی اپوزیشن جماعت مجاھدین خلق کے مرکز’معسکر اشرف‘ پر بمباری کی اجازت دی جائے گی۔