خامنہ ای نے ایرانی پاسدارن انقلاب پر اپنی گرفت کس طرح مضبوط بنائی ؟

Ayatollah Ali Khamenei

Ayatollah Ali Khamenei

ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی پاسداران انقلاب کا سرکاری نام “سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی” ہے۔ یہ ایرانی نظام کی داخلی بقا کا دفاع کرنے والی عسکری طاقت ہے اور ایران کی جغرافیائی سرحدوں کے باہر مداخلت اور توسیع کے واسطے حکمراں نظام کی دست راس ہے۔ یہ متعدد شکلوں کا حامل ادارہ ہے جس میں اقتصادی میدان بھی شامل ہے۔ یہ ایک بڑا اقتصادی ادارہ بھی ہے جو تقریبا 5 ہزار کمپنیوں کو کنٹرول کرتا ہے۔ پاسداران کی انٹیلی جنس صورت اسے وزارت سیکورٹی اور حکومتی انٹیلی جنس اداروں سے زیادہ بلند سطح کا حامل بناتا ہے۔

پاسداران انقلاب کا قیام انقلاب کے فوری بعد ایرانی مسلح افواج کی ایک شاخ کے طور پر 22 اپریل 1979 کو عمل میں آیا۔ اس کی تاسیس کا حکم ولایت فقیہ کے نظام کے بانی اور انقلاب کے سرخیل خمینی نے دیا تھا۔

پاسداران انقلاب سے متعلق اہل کاروں کی مجموعی تعداد 1.2 لاکھ سے 1.3 لاکھ کے درمیان ہے۔ یہ عسکری ادارہ بری فوج کے علاوہ بحریہ اور فضائیہ پر مشتمل ہے۔ ان کے علاوہ پاسداران کی “القدس فورس” بھی ہے جس کی قیادت قاسم سلیمانی کے پاس ہے۔ یہ بیرونی مداخلت کے لیے ایرانی نظام کا عسکری، سیکورٹی اور انٹیلی جنس ونگ ہے۔

پاسداران انقلاب کے ساتھ “باسیج” کا ادارہ بھی الحاق رکھتا ہے۔ اس کی فورس تقریبا 90 ہزار رضا کاروں پر مشتمل ہے جو تنظیمی طور پر پاسداران انقلاب کے ساتھ مربوط ہیں۔ ان کا وجود تمام سرکاری دفاتر، اداروں، اسکولوں، جامعات، فیکٹریوں اور یہاں تک کہ ہسپتالوں میں بھی ہے۔

اس وقت پاسداران انقلاب کا شمار ایرانی نظام کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے دست راس کے طور پر ہوتا ہے۔ خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی مُرشد “خمینی” کی موت کے بعد 1989 میں ایرانی نظام کی باگ ڈور سنبھالی۔ اُس موقع پر خامنہ ای کو زیادہ مقبولیت حاصل نہیں تھی۔ اگر احمد خمینی (خمینی کے بیٹے) اور ہاشمی رفسنجانی (خمینی کی قریب ترین شخصیت) کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو خامنہ ای کے لیے مرشد اعلی کے منصب پر فائز ہونا ممکن نہ تھا۔ بعد ازاں خامنہ ای نے گذشتہ تین دہائیوں کے دوران دھیرے دھیرے پاسداران انقلاب پر اپنی گرفت کو مضبوط تر بنا لیا۔ یہاں تک کہ انقلاب کی کامیابی میں حصہ لینے والے عناصر خود کو آیت اللہ علی خامنہ ای کے مطیع شمار کرنے لگے۔

خامنہ ای نے اپنی حکمرانی کے ابتدائی برسوں میں اقتصادی، سیاسی اور یہاں تک کہ ثقافتی تعلقات کے میدان میں بھی عسکری شخصیات بالخصوص ایرانی پاسداران انقلاب کی قیادت کے کردار کو بتدریج پروان چڑھایا۔ یہ بات معروف لکھاری بہنام قلی پور نے فارسی زبان کی ویب سائٹ “ایران وائر” پر پوسٹ ہونے والی اپنی رپورٹ میں بتائی۔

خامنہ ای نے پاسداران انقلاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بالا اور زیریں دو طبقوں میں تقسیم کر دیا۔ حالیہ برسوں میں پاسداران کے اعلی عہدے اس کی قیادت میں محدود افراد کے بیچ گردش کر رہے ہیں۔

ایران وائر ویب سائٹ کے مطابق خامنہ ای کی حکمرانی کے دور میں پاسداران کے بعض رہ نماؤں کو دیوار کے ساتھ لگانے کا عمل ،،، اس ادارے کے تنظیمی ڈھانچے کے اندر گہرے اختلافات کی جڑوں کی عکاسی کرتا ہے۔ یاد رہے کہ مرتضی باقری، حیسن علائی اور حسن فیروز آبادی جیسے جنرلوں کو پاسداران انقلاب کے تنظیمی ڈھانچے سے دور کر دیا گیا۔

خامنہ ای کے اقتدار کے سائے میں حکومت کے اعلی مناصب اور اقتصادی ادارے پاسداران انقلاب کو بانٹ دیے گئے۔ اس چیز نے ادارے کو اس کے بنیادی مشن یعنی عسکری امور سے دور کر دیا۔

اس عرصے کے دوران کئی اقتصادی سیکٹروں میں پاسداران انقلاب کے زیر انتظام “خاتم الانبياء” مرکز کی موجودگی پہلے سے زیادہ وسیع پیمانے پر دیکھی گئی۔ اس کے سبب بہت سی نجی کمپنیاں ایران میں بڑے ترقیاتی اور اقتصادی منصوبوں سے دور ہو گئیں۔

وسیع اقتصادی سرگرمیوں میں شرکت کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاسداران انقلاب کے ادارے اور اس کی قیادت کے ہاتھ مالی بدعنوانی میں رنگ گئے۔ پاسداران انقلاب کے زیر انتظام “ياس” ہولڈںگ کمپنی تہران کی بلدیہ کی نادہندہ ہے اور اس پر جعلی کرنسی نوٹ چھاپنے کا بھی الزام ہے۔

ایران میں حکمراں نظام کی قیادت علی خامنہ ای کے ہاتھوں میں آنے کے بعد سے عسکری اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا اور ملک کے محدود وسائل کو عسکری میدان میں لٹایا جانے لگا۔ سال 2016 میں ایرانی حکومت کے سابق ترجمان محمد باقر نوبخت نے اعلان کیا تھا کہ 2017 کے لیے ایران کے دفاعی بجٹ میں 128% کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح 2019 میں عسکری اخراجات بلند ترین سطح پر پہنچ گئے۔ اس سلسلے میں ایرانی پارلیمںٹ نے مسلح افواج کو 200 کھرب ایرانی تومان پیش کرنے کی منظوری دی۔

مبصرین کے نزدیک خامنہ ای کی جانب سے ایرانی معاشرے کے کئی شعبوں کو عسکریت سے آلودہ کرنے کی کوششیں ،،، ان کی مذہبی اور انقلابی حیثیت کمزور ہونے اور ایرانی معاشرے میں ان کی حکمرانی کی مقبولیت کم ہونے کا نتیجہ ہے۔ خامنہ ای نے پاسداران انقلاب اور عسکری فورسز کی سپورٹ کے واسطے جو رقوم خرچ کیں ان سے اندرونی امن کو یقینی بنایا جا سکتا ہے تاہم ان اخراجات بالخصوص شام اور عراق میں لٹائی جانے والے مال نے خامنہ ای کے لیے مزید مخالفت اور تنقید کو جنم دیا۔

بہنام قلی پور کے مطابق خامنہ ای کے زیر قیادت نظام میں داخلہ سیکورٹی کے اداروں کو انتہائی ترجیح حاصل ہے۔ اس حوالے سے ولایت فقیہ کے نظام اور مذہبی شخصیات کے تحفظ کو سیکورٹی کے دیگر تمام شعبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

یہ بات معروف ہے کہ خامنہ ای کی جانب سے ایرانی پاسداران انقلاب اور ایرانی مسلح افواج کو کنٹرول کرنے کا طریقہ کار سادہ مگر جامع اور مؤثر ہے۔ اعلی ترین سطح کا کوئی بھی عسکری قائد خامنہ کی اجازت کے بغیر بڑے تزویراتی فیصلے نہیں کر سکتا۔ اس عسکری نظام میں خامنہ ای کو ایرانی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت حاصل ہے۔ عسکری، سیکورٹی یہاں تک کہ ثقافتی میدان میں بھی اہم منصبوں پر تمام نامزد امیدواروں کے لیے خامنہ ای کی منظوری لازم ہوتی ہے۔

علی خامنہ ای ایران میں اختیارات کے مختار کل ہونے کی حیثیت سے کسی بھی عسکری اہل کار یا کمانڈر کو سزا دینے پر قادر ہیں اور اس واسطے کسی قسم کی پوچھ گچھ یا تحقیقات بھی ضروری نہیں۔

اعلی عسکری قیادت کی جانب سے غداری یا انقلاب کے امکان کے خوف کے سبب خامنہ ای نے انہیں باہمی مسابقت اور رقابت میں پھنسا دیا ہے۔ عسکری قائدین ایک دوسرے سے بد ظن رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ عسکری قیادت کو آئے دن خامنہ ای کے ہاتھوں برطرفی یا منتقلی کا نشانہ بھی بننا پڑتا ہے۔

اس صورت حال میں عسکری قیادت میں شامل بعض شخصیات کو اپنے مستقبل کے حوالے سے سخت تشویش لاحق ہو چکی ہے۔

پاسداران انقلاب اور وزارت سیکورٹی و انٹیلی جنس کے علاوہ خامنہ ای نے دیگر سیکورٹی اداروں کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ ان میں “پاسداران انقلاب تنظیم کی انٹیلی جنس” کا قیام شامل ہے۔ اس ادارے کو انٹیلی جنس سرگرمیوں کے علاوہ متعدد حکومتی اداروں اور محکموں کی کڑی نگرانی کی ذمے داری سونپی گئی۔

اس طرح خامنہ ای اپنے خصوصی آلہ کار کی مدد سے اپنے تمام حریفوں کو ختم کرنے، تمام مخالفین کو کچلنے اور اپنی پالیسیوں پر عمل درامد کرانے میں کامیاب رہے۔ اس آلہ کار کا نام “ایرانی پاسداران انقلاب” ہے۔