ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران میں پیش آئند صدارتی انتخابات سے قبل مبصرین صدارتی انتخابات کے بارے میں متعدد امکانات کا اظہار کر رہے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ صدارتی انتخابات میں سخت گیر شخصیت کی فتح یقینی ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نئی حکومت “انقلابی اور جوان” قرار دینے کا تاثر دیا ہے۔
متعدد ذرائع ابلاغ نے 18 جون 2021 کے انتخابات کے لیے قدامت پسند امیدواروں کی فہرستیں شائع کیں ، جن میں سینیر عہدوں پر فائز تجربہ کار سیاستدانوں کے علاوہ ، حال ہی میں مئی 2020 میں ایرانی پارلیمنٹ میں داخل ہونے والے نوجوان ارکان بھی شامل ہیں۔ ایرانی حکومت کی ایکسپیڈینسی کونسل کے ایک رکن احمد توکلی نے انکشاف کیا ہے کچھ ریاستی عہدیدار جن کو سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے مقرر کیا تھا انہیں سپریم لیڈر کی حمایت بھی حاصل ہے وہ اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
توککلی نے کہا کہ کچھ حقائق اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ سپریم لیڈر کے ذریعہ مقرر کردہ کچھ ایگزیکٹو اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں ، لیکن اس معاملے میں دو اہم خامیاں ہیں ، اول: اس سے انہیں غیر منصفانہ مراعات ملتی ہیں اور دوسری بات: ہدایت نامہ پر تعصب کا الزام لگایا جائے گا۔
توکلی نے سپریم لیڈر کے دفتر کو مشورہ دیا کہ ان لوگوں کو ستمبر کے آخر تک اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینے کا موقع فراہم کریں۔
سخت گیر امیدوار جہاں تک ممکنہ صدارتی امیدواروں کے بارے میں اطلاعات آئی ہیں ان کے بارے میں توکلی نے کہا کہ مختلف ذرائع ابلاغ میں ان میں سے سب سے اہم افراد کے نام سامنے آئے جو یہ ہیں:
مہرداد بزباش: مہرداد کا شمار ایرانی پارلیمنٹ کے نئے ارکان میں ہوتا ہے مگر انہیں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے حمایت حاصل ہے۔ دو ہفتے قبل ایرانی پارلیمنٹ میں سخت گیر ارکان نے بھی ان کی حمایت کی تھی۔ پارلیمنٹ میں انہیں 150 سے زائد سخت گیرارکان کی حمایت ہے۔
بزباش 2017 کے صدارتی انتخابات میں امیدوار تھے۔ متعدد میڈیا رپورٹس میں اشارہ کیا گیا تھا کہ وہ مئی 2021 میں 2021 کے صدارتی انتخابات میں محاذ کے امیدوار ہوں گے۔
عزت اللہ ضرغامی ایرانی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کارپوریشن کے سابق سربراہ عزت اللہ ضرغامی پاسداران ا نقلاب ایک سیاسی اور فوجی شخصیت ہیں ، جو ایک طویل عرصے سے اپنے آپ کو امیدوار کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ ایران میں عوامی مظاہروں کو دبانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کی فہرست میں اس کا نام شامل ہے۔ اس کے باوجود ضرغامی اس وقت اپنے آپ کو شہری آزادیوں، خواتین اور نوجوانوں کے محافظ کے طور پر پیش کرتے ہیں جب کہ یہ سب کچھ انہوں نے وزیر ثقافت کے دوران کبھی نہیں کیا۔ بعد میں وہ دس سال تک ریڈیو اور ٹیلی ویژن کارپوریشن کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔
ضرغامی”سائبر کونسل” کا ایک سینیر ممبر ہے جو صدر روحانی کی سربراہی میں کام کرتی ہے۔یہ کونسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پابندیوں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔
محمد باقر قالیباف محمد باقر قالیباف اس وقت ایرانی پارلیمںٹ کے اسپیکر ہیں جو 2017 میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے پچھلے دور میں بھی امیدوار تھے۔ اگرچہ قالیباف نے مستقبل میں انتخاب لڑنے کے بارے میں اپنی خواہش کو پوشیدہ نہیں رکھا البتہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ پارلیمنٹ اور حتیٰ کہ خامنہ ای بھی انہیں ایک وقت میں دو عہدے ساتھ رکھنے کی اجازت دیں گے۔
سورنا ستاری ایرانی صدر حسن روحانی کے سائنسی امور کے لیے معاون سورنا ستاری جو “مزاحمتی معیشت” کے نظریہ کو فروغ دیتے ہیں اور تیل پر انحصار کرنے کی بجائے علم ، تخلیقی صلاحیتوں اور جدت پر مبنی معیشت پر زور دیتے ہیں۔وہ بھی آئندہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں امیدوار بن سکتے ہیں۔ ان کا شمار بھی خامنہ ای کے مقربین میں ہوتا ہے۔
پرویز فتاح پرویز فتحاح المستضعفین ریلیف فاؤنڈیشن کے صدرہیں۔ یہ تنظیم ایرانی سپریم لیڈر کے ماتحت ٹیکسوں سے مستثنیٰ بہت بڑا مالی ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ فتاح نے حال ہی میں اقتصادی منصوبوں کی نگرانی کے دورے کے دوران اپنی سرگرمیاں شروع کیں اور اپنے آپ کو ایرانی پاسداران انقلاب کے قدس فورس کے سابق کمانڈر قاسم سلیمانی کے قریبی شخص کے طور پر پیش کیا۔
علی رضا زکانی علی رضا ذاکانی ایرانی پارلیمنٹ میں ایک سخت گیر بنیاد پرست تحریک کے سابق نائب ہیں جس نے ایرانی صدر حسن روحانی کے دفتر میں بدعنوانی کے مقدمات کی پیروی کرتے ہوئے صدر کے بھائی حسین فریدون کے زیر انتظام “بدعنوانی کے نیٹ ورک کا گڑھ” قرار دیا۔ ان کا شمار بھی خامنہ ای کے مقربین میں ہوتا ہے۔