کراچی (محمد شعیب) وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ خان صاحب رفتہ رفتہ پچاس ہزار کا قالین پانچ سو روپے میں بیچنے پر تیار ہیں، پھر بھی کوئی خریدنے کو تیار نہیں۔کہاں چار سیٹوں سے کہانی شروع ہوئی اور کہاں سول نافرمانی سے آگے بڑھ کے اڑتالیس گھنٹے کے ایک اور الٹی میٹم تک آ گئی۔خان صاحب نے یہ بھی تسلیم کرلیا کہ وزیرِ اعظم کو قانونی طریقے سے ہٹانا مشکل ہے لہٰذا الٹی میٹم کے خاتمے پر میرے کارکن جانیں اور نواز شریف جانیں۔ صاف نظر آرہا ہے کہ اب وہ انتہائی مطالبات کی اسنارکل پر چڑھا کے ایسے مارگلہ پر پہنچا دیے گئے ہیں
جہاں سے اترنا محال ہے۔اور اسنارکل بھی وہ کہ جس کے آپریٹروں میں شیخ رشید اور چوہدری برادران جیسے مہان گرگِ باراں دیدہ شامل ہیں۔ اس وقت عمران خان کے لیے نواز شریف سے بڑا مسئلہ وہ ہجوم ہے جسے وہ بڑھکوں کی بین سے نکلنے والی سنہری مستقبل کی مدھر تانیں سناتے سناتے ریڈ زون کی سرحد تک لے آئے ہیں۔مجمع مست ہے اور اتنا مست کہ اگر بین رکھ دی تو کہیں سپیرے کو ہی لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
علامہ طاہر القادری بظاہر لاکھ جذباتی سہی لیکن انگریزی کے محاورے کے مطابق دئیر آز اے میتھڈ ان ہز میڈ نس۔۔۔ انقلاب آیا آیا نہ آیا نہ آیا۔اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا۔ویسے بھی ان کی سیاست کا محور یہ فلسفہ ہے کہ ، ’’ قادری سویٹ مارٹ۔یہاں ہر قسم کا مال آرڈر کے مطابق تسلی بخش تیار کیا جاتا ہے۔جھوٹا ثابت کرنے والے کو دس ہزار روپے نقد ’’۔۔۔بک گیا تو بک گیا ورنہ خود کھا لیں گے مہم جوئی کے ڈیپ فریزر میں رکھ کے اور ٹورنٹو میں تو ڈیپ فریزر کی ویسے بھی ضرورت نہیں۔
مگر مقامی مدبر عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ ان کے پاس ایک پورے صوبے کی حکومت ہے جسے اگلے چار برس میں ترقی و فلاح کا شو کیس بنانے سے کسی نے نہیں روکا۔اگر لوگ کام دیکھ کر عبدالستار ایدھی اور شوکت خانم اسپتال کی مدد کرسکتے ہیں تو ایک صوبے کی مدد کیوں نہ کریں گے۔آخر نریندر مودی نے بھی تو ایک غریب بھارت میں سیاست کرتے ہوئے اپنی ریاست گجرات کو ترقی کا شو کیس بنایا کہ نہیں۔اور اسی کے نتیجے میں آج وہ دلی میں براجمان ہے۔اگر اسی مودی کی جگہ کسی پرویز کتھک کی سرکار ہوتی تو سوچئے کیا ہوتا۔گجراتی پانی میں ڈوب رہے ہوتے اور چیف منسٹر ٹھمکے لگا لگا کر ان کا جی بہلا رہا ہوتا۔
اور جہاں تک شریف برادران کا تعلق ہے تو اتنے موقع تو آسمان نے بنی اسرائیل کو نہیں دیے جتنے شریف برادران کو مل گئے۔ لیکن ان کا تصورِ ترقی تاج محل سے کم کچھ دیکھ ہی نہیں سکتا۔او بابا پہلے غریب کی جھونپڑی میں دیا جلاؤ پھر لال قلعہ بناؤ۔جوتیاں چٹخاتے گریجویٹ بے روزگار کو بھلے ملازمت نہ دو مگر کم ازکم بے روزگاری میں تو میرٹ رکھو۔گلیوں کے کیچڑ کی صفائی کے لیے خود مختار بلدیاتی ادارے تو بننے دو اس کے بعد نئے موٹر وے بھی بنا لینا۔
پہلے پرائمری اسکولوں میں بچوں کے لیے پینے کا صاف پانی، نئے ٹاٹ، لیٹرین اور اساتذہ کا تو انتظام کردو اس کے بعد جو پیسہ بچے اس سے دانش اسکول کا شوق بھی پورا کرلینا۔پہلے پولیس کو تو ایک آزاد، قابل اعتبار ، منظم اور انسانی ادارہ بناؤ اس کے بعد اپنے لیے سو بلٹ پروف گاڑیاں اور ایک ہزار بارود سونگھنے والے کتے اور ایک لاکھ موبائل جیمرز بھی منگوا لینا، آپ نے اتنے سارے ایڈوائزر رکھ چھوڑے ہیں ،کاش کوئی مشیر برائے تاریخ بھی بھرتی کرلیتے جو ہر صبح ناشتے کی بھری میز پر آپ کے کان میں سرگوشی کرے کہ میاں صاحب فرانس کی ملکہ نے بھی اپنے محل کی بالکونی سے بھوکے بے روزگاروں کا ہجوم دیکھ کر کہا تھا کہ یہ لوگ روٹی کیوں مانگ رہے ہیں؟
کیا کیک تک نہیں خرید سکتے ؟ اس کے بعد بھی اگر فرانس میں انقلاب نہ آتا تو لعنت تھی ایسے فرانسیسیوں پر۔اور یہ مشیر بتائے کہ بقول امریکی سفیر ولیم سلیون جب رضا شاہ پہلوی کو ہیلی کاپٹر میں بٹھا کر تہران کا چکر لگوایا گیا تو شاہ نے دھواں اٹھتی عمارات دیکھ کر پوچھا’’ یہ کون لوگ ہیں جو ہماری ترقی سے جلتے ہیں۔انھیں تہران آنے کی اجازت کس نے دی۔‘‘
مگر فرانس کو تو انقلاب لانے کے لیے روسو ، والٹئیر ، مانٹیسکئو جیسے فلاسفر اور روبسپئیر جیسے عملیت پسند اور اولمپی دی گوگے جیسی ادیبہ مل گئی تھیں۔ایران کو تو علی شریعتی ، تودے پارٹی اور خمینی دستیاب ہوگئے تھے۔ہمارے حصے میں طاہر القادری ، رحیق عباسی ، عمران خان ، شاہ محمود اور شیریں مزاری وغیرہ الاٹ ہو گئے۔ان کا انقلاب فی الحال ’’پنجاب کے لیے ، پنجاب میں ، پنجاب کے ذریعے ’’ کے سوا کچھ نہیں۔
پیپلز پارٹی یا ن لیگ والوں کا تو پڑھنے لکھنے سے اتنا علاقہ نہیں لیکن ’’ قبلہ ‘‘ کے جتھے اور ’’خان صاحب ‘‘کی جماعت میں تو اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ہیں۔کیا کسی میں اخلاقی جرات نہیں کہ دونوں کو بتا سکے کہ بھائیو پچھلے سات ہزار سال میں آنے والے انقلابات کی تاریخ ہی پڑھ لو انقلاب اب تک صرف انھی معاشروں میں آیا ہے جن کی زبان، زمین، ثقافت، مسائل، سوچ اور مستقبل کا خاکہ سانجھا تھا۔
بھلے وہ چودہ سو سال پہلے کا مکہ ہو کہ دو سو برس پہلے کا فرانس اور امریکا یا بیسویں صدی کا چین اور ایران یا پھر اکیسویں صدی کی عرب اسپرنگ۔ برِصغیر المعروف ہندوستان کی زمین میں آج تک کوئی انقلاب نہیں آیا۔یہاں پچھلے سات ہزار برس سے کچھ لو کچھ دو کے اصول پر ہی زندگی رواں ہے۔جہاں بھانت بھانت کی قومیتیں، زبانیں، الگ الگ مسائل، سوچ، نظریات اور عقائد ہوں وہاں ارتقائی عمل تو ممکن ہے انقلاب بہت مشکل ہے۔
اور رہی بات انقلاب بذریعہ لانگ مارچ۔تو آپ نے تو صرف لاہور تا آب پارہ عظیم لانگ مارچ کیا ہے جس کی تھکاوٹ اب تک نہیں اتر سکی۔ماما قدیر نے تو کوئٹہ سے کراچی اور کراچی تا اسلام آباد چند عورتوں اور بچوں کے ساتھ دو ہزار کلو میٹر کا پیدل مارچ کیا۔کیا وہ ماڈل ٹاؤن کے القادریہ میں ایک رات قیام اور اسلام آباد کے بنی گالا میں ایک وقت کی چائے کا بھی مستحق نہیں تھا ؟ کیا اسے کسی نے آب پارہ کے مارچ میں شرکت کی دعوت دی ؟ کیا وہ انقلابی نہیں ؟ سارا شو بس لاہور تا اسلام آباد اور باقی صوبوں کے لیے صرف یہ پیغام کہ بھینس بھینس تجھے چور لے چلے اور بھینس پلٹ کے کہہ رہی ہے کہ کوئی بھی لے جائے ہمیں تو چارہ ہی ملے گا۔
رہی بات انقلاب بذریعہ دھرنا ؟ تو کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ناٹو سپلائی کو روکنے کے لیے پشاور کے رنگ روڈ پر اپنی ہی حکومت کے دھرنے کا کیا حشر ہوا ؟ اب تو اس کا کوئی ذکر تک نہیں کرتا۔اور کیا ’’ قبلہ ’’ زرداری حکومت کی ناک کے نیچے اپنے پانچ روزہ دھرنے کو بھول گئے جسے ختم کرانے کے لیے وہی لوگ آگے آئے جنھیں قبلہ نے صبح گیارہ بجے تک استعفی دینے کا الٹی میٹم دیا۔
حضور اب تو ایک ہفتہ ہو چلا۔اسلام آباد کے بچوں کو اسکول کی ضرورت ہے، پشاور کے بارش زدگان کو دستِ شفقتِ سرکار کی ضرورت ہے۔درآمدیوں اور برآمدیوں کو ٹرالرز کی ضرورت ہے۔آپ نے ایک سو چوالیس گھنٹے انقلاب کی سائیکل چلا کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کردیا ہے، اب حزبِ اختلاف کے ہاتھوں شربت پی کر سائیکل سے اتر آئیے اور وکٹری کا نشان بناتے ہوئے انقلاب زندہ باد ، آزادی پایندہ باد کا نعرہ لگاتے لگاتے بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر نواز شریف کے موٹر وے کے بجائے شیر شاہ سوری کی جی ٹی روڈ سے عازمِ لاہور ہوئیے۔
راستے بھر رک رک کے یہ بھی ضرور کہتے جائیے گا کہ فی الحال تو میں سراج الحق ، خورشید شاہ اور الطاف حسین کی بات رکھ رہا ہوں مگر جلد ہی کفن بردوش پھر سے آؤں گا اور اگلی بار خدا کی قسم حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجائے بغیر نہیں لوٹوں گا۔جلدی کیجیے، کہیں یہ نہ ہوجائے کہ آپ اسی طرح کوہِ کنٹینر پر چڑھے رہیں اور کوئی ترازو والا بندر آئے اور دونوں پلڑوں میں روٹی برابر برابر تولنے کے چکر میں سب سیاسی روٹی کھا جائے۔