اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما خواجہ آصف کے خلاف توہین مذہب کی شکایت کرنے والے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے عہدیدار ضرور ہیں لیکن ایسا بیان اگر وزیراعظم دیتے تو وہ ان کے خلاف بھی پولیس میں شکایت کرتے۔
خواجہ آصف نے پچھلے ہفتے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے مسئلے پر قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے آئین کے تحت تمام مذاہب برابر ہیں اور ہر شہری کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ان کے اس بیان کے بعد بعض مذہبی شخصیات انہیں تنقید کا نشانہ بنارہی ہیں۔ ان کا موقف ہےکہ اسلام دراصل تمام مذاہب پر افضل ہے۔
خواجہ آصف کے خلاف شکایت جمعے کو ظفر وال کے وکیل اور حکمراں پی ٹی آئی کے مقامی صدر قمر ریاض نے جمع کرائی۔ درخواست میں انہوں نے الزام لگایا کہ خواجہ آصف نے تمام مذاہب کو برابر قرار دے کر اسلام کی توہین کی ہے۔
پولیس نے درخواست لے لی لیکن مقدمہ درج نہیں کیا کیونکہ حکام کے مطابق مبینہ جرم کی جائے وقوعہ اسلام آباد ہے۔ لیکن قمر ریاض کا اصرار ہے کہ توہین مذہب کی شکایت کسی بھی تھانے میں درج کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا، “یہ کہنا غلط ہے کہ یہ درخواست یہاں نہیں جمع ہو سکتی۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا میر شکیل الرحمن کے خلاف پورے ملک میں مقدمات نہیں ہوئے تھے؟ تو پھر یہ مقدمہ یہاں کیوں نہیں ہو سکتا؟”
انہوں نے کہا کہ مقامی وکلا برادری خواجہ آصف کے بیان کے خلاف قرار دادیں منظور کرنے جارہی ہے۔ قمر ریاض نے کہا کہ کیس داخل کرنے کے لیے انہیں اسلام آباد جانا پڑا تو وہ اس سے گریز نہیں کریں گے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی پارٹی کا اس معاملے پر کیا موقف ہے، تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ شکایت سیاسی حیثیت میں نہیں بلکہ بطور ایک مسلمان شہری کے کرائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ، “میں پی ٹی آئی کا صدر تو ابھی حال ہی میں بنا ہوں لیکن اگر عمران خان بھی ایسا کوئی بیان دیتے تو میں ان کے خلاف بھی شکایت کرتا۔”
خود خواجہ آصف جمعے کو ہی قومی اسمبلی میں وضاحت کر چکے ہیں کہ ان کا بیان آئین پاکستان میں مذہبی برابری کے اصولوں کے عین مطابق تھا۔
اس کے باوجود اسلام آباد میں ہفتے کو لال مسجد شہدا فاؤنڈیشن کے ترجمان حافظ احتشام نے بھی مرگلہ تھانے میں خواجہ آصف کے خلاف شکایت جمع کرائی ہے۔ تھانے کے ایس ایچ او نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ درخواست پر قانونی رائے کے لیے اسے لیگل ڈپارٹمنٹ کو بھجوا دیا گیا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکن اس طرح کی مقدے بازی کو ایک خطرناک رجحان قرار دے رہے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن سے وابستہ اسد بٹ کا کہنا ہے کہ اس رجحان سے عوامی نمائندوں میں خوف پیدا ہوگا۔ “اختلاف رائے کو کچلنےکے لئے یہ انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ پارلیمنٹ واحد ایک جگہ رہ گئی ہے جہاں کچھ کھل کر بولا جا سکتا ہے لیکن اب اس کو بھی بند کرنے کی تیاری ہورہی ہے، جو تباہی کا پیش خیمہ ہے۔”
پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر فواد چودھری نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ سیاسی اختلاف اپنی جگہ، لیکن خواجہ آصف نے کوئی غلط بات نہیں کی۔
پی پی پی کے رہنما تاج حیدر کا کہنا ہے کہ ایسے ہتھکنڈے عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ “لیکن عوامی نمائندے ان ہھتکنڈوں سے نہیں ڈرتے۔ وہ سیاست میں حصہ ہی اس وقت لیتے ہیں،جب وہ یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ان کی جان ہتھیلی پر ہوگی کیونکہ انہیں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینی ہے۔ ہم کسی کو اس مسئلے پر سیاست نہیں کرنے دینگے۔”
نواز لیگ کی حکومت میں آخری چند ماہ کے دوران وزیر قانون زاہد حامد بھی مذہبی حلقوں کے عتاب کا نشانہ بنے جس کے باعث انہیں مستعفی ہونا پڑا تھا۔ نواز لیگ کے ایک اور سینئر رہنما اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال پر ایک انتہا پسند نے قاتلانہ حملہ کیا جس میں وہ زخمی ہوئے۔ خود میاں نواز شریف پرکچھ برس قبل ایک مذہبی جنونی نے اس وقت جوتا پھینکا جب وہ لاہور کے ایک دارالعلوم میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ماضی میں کچھ عناصر نے پی پی پی کی رہنما شیری رحمان کے خلاف بھی توہین مذہب کا مقدمہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ انتخابات سے پہلے ایک وڈیو میں خود عمران خان کو ختم نبوت پر اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ عرصے پہلے ایک خاتون بیوروکریٹ کو پنجاب میں ایک تقریب کے دوران ایک مذہبی مسئلے پر طالب علموں کے سامنے اپنے صفائی دینے پر مجبور کیا گیا۔